فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کردیا اور جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس میں چھ فروری 2019 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی نو درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔مقدمے کی سماعت کا آغاز ہی قدرے تلخ ماحول میں ہوا جب پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے وکیل حافظ ایس اے رحمان بینچ کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُن سے بار بار استفسار کہ انہوں نے پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کا بیانِ حلفی تاحال کیوں نہیں پڑھا جبکہ یہ سنیچر کو سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔عدالتی بینچ نے پیمرا کے موجودہ چیئرمین محمد سلیم بیگ کے کنڈکٹ پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ ’چیئرمین نے اپنی اتھارٹی کا قانون تک نہیں پڑھا۔‘پیمرا کے چیئرمین سلیم بیگ عدالت کے اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے کہ انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی درخواست کیوں دائر کی۔سلیم بیگ نے ایک بار کہا کہ نظرثانی اتھارٹی نے دائر کی جبکہ بعد میں کہا کہ انہوں نے اتھارٹی کے ارکان سے مشاورت کے بعد فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست دائر کی۔انہوں نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا کہ جب دیگر تمام فریق نظرثانی دائر کر رہے تھے تو انہوں نے بھی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی۔طویل سماعت کے دوران زیادہ تر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی روسٹرم پر موجود اٹارنی جنرل، پیمرا کے چیئرمین اور دیگر وکلا سے مخاطب رہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ درمیان میں بعض مواقع پر سوالات پوچھتے رہے۔بینچ کے تیسرے رکن جسٹس امین الدین خان زیادہ تر خاموشی سے کارروائی کا حصہ رہے۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھوایا کہ اگر اٹارنی جنرل کی تجویز پر حکومت انکوائری کمیشن تشکیل دیتی ہے تو اس کے ٹرمز آف ریفرنسز میں یہ بھی شامل کرے کہ عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست کیا تمام فریقوں نے کسی جگہ سے ہدایات ملنے پر ایک ساتھ دائر کیں؟نظرثانی دائر کرنے والے الیکشن کمیشن، پیمرا، تحریک انصاف،وزارت دفاع، انٹیلیجنس بیورو، شیخ رشید اور اعجاز الحق نے اپنی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔عدالت نے شیخ رشید کے سوا دیگر تمام فریقوں کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کرنے کا حکم دیا۔ عدالتی حکم نامے کے مطابق شیخ رشید کو ایک اور موقع دیا جاتا ہے کہ وہ واضح الفاظ میں آگاہ کریں کہ کیا پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم کے بیان حلفی کو اہم قرار دیا ہے۔بدھ کو عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو ابصار عالم کے بیان حلفی کو جسٹس اطہر من اللہ نے غیرمعمولی قرار دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے سارے افراد اگر اس طرح جرات کا مظاہرہ کریں تب ہی آئین کی بالادستی قائم ہو گی۔ ’جو ابصار عالم نے کیا وہ تمام پبلک آفس ہولڈر کریں گے تب ہی آئین کی بالادستی ہو گی۔‘جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ریٹائرمنٹ کے بعد سب کہتے ہیں کہ بہت دباؤ تھا، ابصار عالم نےعہدے پر رہتے ہوئے دباؤ کے بارے میں اُس وقت کے وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف کو تحریری طور پر آگاہ کیا۔ وہ بہادر شخص ہیں۔‘ابصار عالم نے جسٹس اطہر من اللہ سے کہا کہ اُن کے لیے یہ الفاظ سرمایہ حیات ہیں۔ابصار عالم نے اپنے بیان حلفی کے بارے میں چیف جسٹس کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بطور چیئرمین پیمرا اُن سے آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ جنرل فیض حمید نے جیو نیوزپر تجزیہ کار نجم سیٹھی کا پروگرام بند کرنے کے لیے کہا تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اُس کی وجہ کیا تھی؟ جس پر ابصار عالم نے بتایا کہ نجم سیٹھی نے ایک پروگرام میں تجزیہ کرتے ہوئے فوج کی ادارہ جاتی کرپشن کے بارے میں بات کی تھی۔چیف جسٹس نے اُن سے پوچھا کہ ’جو بات آپ کر رہے ہیں اگر حکومت کوئی انکوائری کمیشن تشکیل دے تو وہاں یہ بیان دیں گے؟ کیونکہ ایک شخص کا نام لیا گیا اُس شخص (جنرل ر فیض حمید) کو بھی وہاں بیان کے لیے بلایا جا سکے گا۔‘ابصار عالم نے کہا کہ وہ حلفیہ بیان دے چکے ہیں اور کمیشن کے سامنے بھی پیش ہونے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بطور چیئرمین پیمرا مختلف ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز کے خلاف قانون کےمطابق کارروائی کی مگر دھرنے کے دوران 92 نیوز کے خلاف کارروائی کرنے سے روکا گیا حالانکہ اُس وقت یہ چینل اشتعال انگیزی پھیلا کر تشدد پر اُبھار رہا تھا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مخصوص چینل کی نشریات جاری رکھ کرفوجی افسر تشدد کرانا چاہتا تھا؟‘جواب میں ابصار عالم نے کہا کہ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت ایسا ہی تھا۔چیف جسٹس نے ابصار عالم سے سوال کیا کہ پیمرا کے موجودہ چیئرمین یہ نہیں بتا پا رہے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کی، کیا آپ اس بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ابصار عالم نے کہا کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ہی بات کر سکتے ہیں باقی موجودہ چیئرمین ہی بہتر جانتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ابصار صاحب ! اب آپ پیچھے نہ ہٹیں۔‘پیمرا کے سابق چیئرمین نے کہا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹ رہے اور اپنے بیان پر قائم ہیں مگر پہلے یہ معلوم ہو کہ جب اتھارٹی نے فیصلے نظرثانی درخواست دائر کی تو آئی ایس أئی کا سربراہ کون تھا؟چیف جسٹس نے کہا کہ ’نظرثانی درخواست مارچ 2019 میں دائر کی گئی، اب بتائیے۔‘ابصار عالم نے کہا کہ کیا اُس وقت آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل فیض حمید تھے؟ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ نظرثانی دائر کرنے کے لیے وزارت اطلاعات یا انٹیلی جنس ایجنسی نے کہا ہو گا۔چیف جسٹس نے پیمرا کے موجودہ چیئرمین محمد سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ ’بتا دیجیے وہ کون تھا جس نے نظرثانی درخواست دائر کرنے کے لیے کہا؟ سچ کی طاقت ہوتی ہے، جھوٹ بونے کے لیے بہت سوچنا پڑتا ہے۔ آپ ہماری مدد نہیں کر رہے، کمیشن بن گیا تو کیا کریں گے؟‘چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے پیمرا کے چیئرمین سے کہا کہ ’دھرنے والوں نے تو فیصلے پرنظرثانی دائر کرنے کا نہیں کہا تھا۔ اوپر سے حکم آیا یا ٹاس کرنے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا؟‘قبل ازیں پیمرا کے چیئرمین نے عدالت کو بتایا تھا کہ اُن کی قانونی ٹیم نے نظرثانی دائر کرنے کا مشورہ دیا تھا، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ دیگر تمام فریق فیصلے پر نظرثانی درخواستیں دائرکر رہے تھے تو انہوں نے بھی ایسا کرنے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس نے اس دوران ابصار عالم سے انگریزی میں کہا کہ ’موجودہ چیئرمین کہتے ہیں اُن پرکبھی کوئی دباؤ نہیں آیا، اس طرح آپ بہت بدقسمت رہے۔‘ابصار عالم نے جواب دیا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں موجودہ چیئرمین بہت خوش قسمت ہیں مگر وہ اپنے کام سے مطمئن اور اپنی ذات سے خوش ہیں۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو 15 نومبر تک کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔