اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com
غالب نے تو جانے کس پس منظر میں کہا تھا کہ ’تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے‘مگر وطن عزیز کے کچھ حلقوں نے تو پچھلے ڈھائی سال سے بدکلامی کو اپنا اوڑھنا بچھانا بنا لیا ہے۔اسی تناظر میں چند روز قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پر کو مڈل ٹیمپل کا بینچر بنانے کی تقریب کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے دشنام طرازی کی گئی۔تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ تقریب سے باہر نکلتے ہوئے پی ٹی آئی کارکنوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کیا اور مکے برساتے رہے۔ اس موقع پر، ملیکہ بخاری، ذلفی بخاری،اظہرمشوانی ویگر نے مظاہرین سے خطاب بھی کیا تھا۔دوسری جانب وزیر داخلہ محسن نقوی نے حملہ آوروں کے پاسپورٹ منسوخی کا اعلان کیا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نادرا کو حملہ آوروں کی شناخت کیلئے فوری اقدامات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ فوٹیجز کے ذریعے حملہ آوروں کی نشاندہی کی جائے اور ان کے خلاف پاکستان میں ایف آئی آر درج کرکے مزید کارروائی کی جائے گی اور ان کے شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کیے جائیں گے۔مبصرین کے مطابق یو ں تو ماضی بعید میں بھی سیاسی مخالفین کے خلاف گاہے بگاہے سخت نکتہ چینی ہوتی رہی ہے خصوصا ”فرزند راولپنڈی“ شیخ رشید ایک مرحلے پر ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے رہے مگر 2006میں نواز شریف اور محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد سے یہ صورتحال بڑی حد تک ختم ہو گئی تھی مگر پھر 2018میں بانی صاحب کے برسراقتدار آنے کے بعد سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنا معمول بن کر رہ گیا۔خصوصا2022میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد تو بڑے بڑے جلسوں میں مولانا اور دیگر مخالفین کو چور، ڈاکو اور ڈیزل سمیت طرح طرح کے ناموں سے پکارنا معمول بن چکا تھا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ کچھ عرصے سے یہ رجحان بن گیا ہے کہ عوام کا ایک طبقہ سوشل میڈیا پر فلسفے بگھارنے والے چند مخصوص افراد کی تقلید میں حقیقت اور فسانے کا فرق بھی ملحوظ نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ افراتفری اور انتشار کو فروغ دینے والے یہ چند ”یوٹیوبرز“ یا نام نہاد ”سوشل میڈیا انفلوئنسرز“ اپنے وقتی فائدے کیلئے ریاست کے خلاف ہی پراپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ امر بھی اب ایک کھلا راز بن چکا ہے کہ تحریک انصاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان کو ایک ناکام ملک کے طور پر پیش کر نے کی مکروہ سازش میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس مقصد کیلئے سوشل میڈیا پر بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق دانستہ طور پر پاکستان کا مخصوص عکس پیش کر کے ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ خود ساختہ دانشور بسا اوقات ایسی باتیں کر دیتے ہیں جن سے انکی اپنی اصلیت ہی انکے فالورز پر آشکار ہو جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی ایسے ہی ایک بھگوڑے یوٹیوبر کی فحش گوئی سامنے آئی ہے جس میں انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی اور انکے رفقائکے اخلاقی اقدار پر بہت سے نا گفتہ بہ سوال اٹھائے ہیں۔ مبینہ سکینڈلز کی ایسے کہانیاں سنائی گئی ہیں جنھیں چاہ کر بھی احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کا ایک حلقہ جو ان یوٹیوبرز کی بات کو حرفِ آخر مان کر ریاستی اداروں کیخلاف شرپسندی پر اتر ہے، کیا اب وہ ان الزامات کے بعد بھگوڑے یوٹیوبر کی فحش گوئی پر اندھا دھند یقین کریں گے؟ سنجیدہ حلقوں کے مطابق تحریک انصاف یہ بیانیہ پیش کر رہی ہے کہ اگر اس کی قیادت کسی طرح بھی نااہل ہو گئی تو گویا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔مبصرین کے مطابق عمرانی میڈیا اپنا بیانیہ وقت وقت کے حساب سے تبدیل بھی کرتا رہتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس اپنے الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں اس کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر اکثر بیرون ملک حکومتوں سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں جو دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔نسبتاً کچھ اعتدال پسند حلقوں کے مطابق اپنے غیر ملکی آقاوں کی مدد سے پی ٹی آئی اپنا بیانیہ بیچنے میں کامیاب بھی نظر آتی ہے جس پر بجا طور پر تشویش ظاہر کیا جانا ضرورت وقت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہیں کہ شخصی آزادی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کے لئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس سکہ رائج الوقت بن چکی ہیں اور اس ضمن میں قومی سطح پر ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہیں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مگر آفرین ہے ایسی شخصیات پر کہ اس امر میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے کہ قومی مفادات کو آگے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مدنظر رکھیں بھلے ہی اس کے نتیجے میں ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
اس امر کی ایک مثال تو ڈیڑھ برس قبل تب سامنے آئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شاہ محمود ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ”ابھی تو ہم نے اس سے مزید کھیلنا ہے“۔دوسری طرف پچھلے کچھ عرصے میں کئی آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن کی بابت ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان کی بابت یہ عذر تراشا جارہا ہے کہ یہ سب آزادی اظہار ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
ایسے میں وطن عزیز میں ایسی ڈیجیٹل دہشتگردی اور شر پسندی کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کر نا کہاں کا انصاف ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے البتہ اس معاملے میں کسی بے گناہ کو نقصان نہ ہو۔ قابل ذکر ہے کہ آزادی کی قدر نہ کرنے والے ان ناشکرے عناصر کوغزہ، فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے احوال کا ذرا سا بھی اندازہ ہو تو یقینا انکا طرز عمل مختلف ہو۔
یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
Nov 02, 2024