سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی
عدل کے بغیر معاشرہ نہ ہی تشکیل پا سکتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔جہاں جہاں انصاف بے باک ہو تا ہے وہاں پر معاشرے کی حالت ہی کچھ اور ہوتی ہے معاشرہ میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو تا ہے معیشت اور معاشرت پھلتی اور پھولتی ہے اور وہ ریاست ترقی کرتی ہے۔ہمارے ہاں بد قسمتی سے انصاف کا حصو ل ہمیشہ سے ہی سوالیہ نشان رہا ہے۔اور یہ اس لیے ہوا کہ ہماری عدلیہ ابتدا سے ہی آزاد اور خود مختار نہیں تھی ،اور پھر کرپشن کا ناسور بھی جس طریقے سے ہمارے اداروں کو ابتدا سے ہی لاحق رہا ہے اس نے بھی انصاف کی راہ میں بہت ہی بڑی رکاوٹ پیدا کی ہے۔کرپشن تو جیسے ہماری قوم میں سرائیت ہی کر گئی ہے۔ہماری اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ بھی کوئی بہت ہی زیادہ درخشاں نہیں رہی ہے اور ان سے یہ امید کبھی بھی نہیں رہی ہے کہ یہ عدالتیں عوام کے حقوق کے لیے طاقتور قوتوں کے سامنے کھڑی ہوں گی اور ان کو بہتری کا راستہ دیکھائیں گی۔بہر حال 70،72سال کی قحط سالی نے عوام اور سیاسی جماعتوں اور معاشرے کی طرح ججز کو بھی بظاہر تقسیم کردیا ہے ،اور اس سوال پر کیا ہے کہ کیا عوامی فلاح کے لیے کسی کی حمایت کی جانی چاہیے جبکہ نظر بھی آرہا ہو کہ ناانصافی ہو رہی ہے۔عدلیہ میں اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں ،اور یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ اختلافات قاضی فائز عیسی ٰ کے دور میں شروع ہو ئے ،اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ،اس وقت موجودہ سیاسی ماحول میں اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس نے کیا کردار ادا کیا ہے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا ،بہر حال جو بھی اختلافات اس وقت اعلیٰ عدلیہ میں موجود ہیں وہ قدرتی اختلافات ہیں اور ان کو برا کسی صورت میں نہیں سمجھا جانا چاہیے۔جہاں بھی آزاد سوچ موجود ہ ہوتی ہے وہاں پراختلافات بھی ہوتے ہیں سوچ کا اختلاف بھی پایا جاتا ہے ،لیکن کوشش یہی کرنی چاہیے کہ یہ اونٹ سیدھی کروٹ ہی بیٹھے۔اور معاملات بہتر انداز میں حل ہوں۔کیونکہ ایک متحد عدلیہ ہی عوام کے حقوق کی ضمانت ہے۔ہمارے ملک میں اور بھی بہت ساری کو تا ہیاں ہیں ،بلکہ کونسا شعبہ ایسا ہے جس میں کہ کو تا ہیاں نہیں ہیں ،ہر شعبہ ہی کمزور ہے ہر شعبہ ہی زوال پذیر ہے لیکن نظام انصاف میں بھی بہت ہی شدید کمزوریاں موجود ہیں جن کو کہ 77برس میں ٹھیک نہیں کیا جاسکا ہے۔یہ ایک شدید مسئلہ ہے کہ حصول انصاف میں بہت مسائل درپیش آتے ہیں اور انصاف میں کمزوری دیگر شعبوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔بلکہ پورے معاشرے کو ہی کھوکھلا کردیتی ہے۔پاکستان میں انصاف نہ ہونے کے برابر ہے اور عام شہریوں کو تو کجا اشرافیہ کو بھی حصول کے لیے جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔اس صورتحال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔بہر حال اس وقت جو اعلیٰ عدلیہ کے ججز جو کہ یقینا سارے ہی قانون کے ماہر اور عالم اور فاضل ہیں ان کے درمیان جو کہ یہ اختلاف ہے اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکلے گا۔ملک میں الیکشن فری اینڈ فیئر ہو نے چاہیے یہی ایک مضبوط جمہوریت کی بنیاد ہو تی ہے ،جب تک کہ ملک میں الیکشن نہیں ہو تے ہیں اور صاف اور شفاف طریقے سے نہیں کروائے جاتے ہیں تب تک عوام کے حقیقی نمائندے بر سر اقتدار نہیں آئیں گے اور مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔رواں برس جو الیکشن ہو ا ہے اس کے بارے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس نے مسائل حل کرنے کی بجائے اور زیادہ بڑھائیں ہیں اور ان الیکشن نے جو کا ر گزاری کرنی تھی وہ کر لی ہے ،یعنی کہ عدلیہ میں تقسیم پیدا کر دی گئی ہے اور وکلا ءبرادری بھی تقسیم ہو چکی ہے۔بس دعا یہی کرنی چاہیے کہ یہ سیاسی عدم استحکام اور تصادم کی کیفیت بہت طوالت نہ اختیار کر جائے ،کیونکہ جتنی طوالت ہو گی اتنا ہی نقصان ہو گا۔کسی ایک نقطہ پر سب کو راضی ہو نا ہو گا ،کہ ملک میں جمہوریت ہو قانون کے مطابق ہو اور اس پر سب راضی ہو ں۔
جو جمہوریت عوام کو قبول نہ ہو ،تو پھر کچھ بھی کر لیں کسی کو ملک میں مدعو کر لیں ،معاملات بہتر ہونے والے نہیں ہیں ،نہ ہی اس سے جمہوریت کو کوئی تقویت ملنے والی ہے۔ہمیں اپنے معاملات کو اندر سے درست کرنا ہو گا اور آگے بڑھنا ہو گا پہلے اپنا ہاوس ان آرڈر کریں گے تو ہی ملک ترقی کرے گا اور اسی صورت میںہی باہر والے بھی توجہ دیں گے۔حقیقت یہی ہے کہ ہمارے لیڈران اس قوم کو قوم بنانے میں ناکام ہیں ،لیکن عوام اب اس بات پر اتفاق کر بیٹھی ہے کہ انصاف چاہیے ،انصاف کا بہترین نظام چاہیے جو کہ عوام کے حق میں بہتر ہو۔یہ پور ی قوم کا نعرہ ہے۔اور اس مقصد کے حصول کے لیے تگ و دو بھی جاری ہے۔ہمیں ملکی حالات سے کو ئی سبق سیکھنا چاہیے ،لیکن ہم سیکھتے نہیں ہیں اور یہی ہمارا مسئلہ ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے ،اگر ہم نے کوئی سبق سیکھنا ہوتا سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھ لیتے۔کسی صورت میں بھی اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ،سیاست میں مداخلت سے ملک کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں اور ادارے بھی متنازع ہو تے ہیں اس عمل سے گریز کیا جانا چاہیے ،لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک کے مقتدرہ ہمیشہ سے ہی سیاست میں بھی اپنا ایک زاویہ سوچ رکھتے ہیں جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔یہ عوامی اجتماعی دانش کی مخالفت ہے کہ ان کی مرضی میں مداخلت کی جائے۔اس وقت ملک سیاسی طور پر جس شدید سیاسی بحران اور سیاسی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے ،اور جس نہج پر وکلا اور ججز بھی پہنچ گئے ہیں ،اس کا حل یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خود کو سیاست سے دور کرے اور اپنی تمام تر توجہ ملکی دفاع اور سیکورٹی کے معاملات پر مرکوز کرے۔اس وقت ملک میں جو بھی اندرونی خلفشار موجود ہے اگر اس کو ایک مثبت ڈھانچے میں ڈھالا جائے اور بہتر انداز میں معاملات کو حل کرکے آگے بڑھایا جائے تو بہتر سوچ نکل سکتی ہے جو کہ پاکستان کو ایک قوم بنا دے۔