اس بار فیصلہ کن جنگ کے لیے نکلیں گے، واپس نہ آئے تو جنازہ پڑھ لیں: گنڈا پور۔
کونسا محاذ ہے؟ کس کے خلاف جنگ ہے؟ کیا مقصد کاز اور مشن ہے؟۔جس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے۔ سیاست میں منزل اقتدار کی مسند تک رسائی ہوتی ہے۔ کوئی عوامی مینڈیٹ سے اس منزل تک پہنچتا ہے کوئی چور دروازے سے، کوئی زقند بھر کے کوئی فارم 45اور کوئی فارم47کے ذریعے۔ گنڈاپور جیسے بھی پہنچے، آج وہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ عمران خان نے جب بھی احتجاج کی کال دی، جلوس نکالنے کو کہا یا جلسہ کرنے کا آرڈر لگایا تو گنڈا پور کو صف اول میں پایا۔ سر پر کفن باندھے نکلے۔ جان ہتھیلی پر لے کے چلے۔ سر بکف دیکھے گئے۔ مگر جب زیادہ تپش محسوس ہوئی تو لک گئے چھپ گئے۔ لوگ سمجھتے رہے اٹھائے گئے مگر وہ اچانک اہل ایماں اور صورت خورشید بن کر ادھر گم ہوئے ادھر کے پی کے اسمبلی کے اجلاس میں جا نکلے۔ اب نئے عزم کے ساتھ نکلنے کا عہد کر رہے ہیں۔ حالات ایسے ویسے ہوئے رفو چکر ہونے کے بعد پھر چھپ گئے۔ ادھر چھپے ادھر جنازہ پڑھنا شروع ہوا۔ جنازہ ختم ہوا تو پچھلی صف میں موصوف بھی شامل جنازہ پائے گئے۔ بہر حال اب کے مصمم ارادہ لگتا ہے خان پر قربان ہونے کا تو جانے سے پہلے خود ہی اپنا جنازہ پڑھ لیں۔
پی آئی اے خریدنے پر کوئی تیار نہیں ہوا۔ ڈیمانڈ 85 ارب، بولی صرف 10 ارب۔
خبریں آ رہی تھیں کہ تین چار پارٹیاں پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان کے کان میں کسی نے اچانک سے پھونک دیا کہ پی آئی اے کے ذمے 200 ارب روپے ہیں۔ 85 ارب سے تو نئی ایئر لائن کھڑی کی جا سکتی ہے۔ چھوڑیں پی آئی اے کی خریداری کو۔ کوئی نئی ایئر لائن کھڑی کرلیں۔ ان تین چار پارٹیوں میں سے ایک آدھ کے سواسب نے اپنی اپنی ایئر لائن کھڑی کر لی۔ کسی نے ڈرائنگ روم میں کھڑی کی ہوگی کسی نے گھر کی چھت پر۔ چلیں کہیں تو کھڑی کی۔ ایک پارٹی رہ گئی اس کا قوم پر احسان ہے کہ 10 ارب روپے ڈوبی ہوئی ایئر لائن پر خرچ کرنے پر تیار ہے۔ جس پر 200 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ سٹیل مل کبھی شاید 20 ارب روپے میں بیچ دی گئی تھی۔ اس وقت اس کے اکاونٹ میں دس ارب روپے موجود تھے۔ دس ارب کا تیار مال پڑا تھا۔ خام مال الگ اور 19 ہزار ایکڑز کے ساتھ اس کے دو رہائشی ٹاون بھی تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ ڈیل کینسل کی تو اہل فروخت نے ایسے چھکے لگائے اور چھکے چھڑائے کہ وہی مل ٹکے ٹوکری ہوئی پڑی ہے۔
چلیں پی آئی اے دس ارب میں ہی بیچ دو کل اس کی حالت بھی سٹیل مل جیسی نہ ہو جائے۔ جہاں ہمیں کسی قسم کی کوئی ملی بھگت نظر نہیں آ رہی۔ 200 ارب کے واجبات کی بات کرنے والے اس کی ایک ایک پراپرٹی کو چار چار سو ارب میں بیچ لیں گے۔ بہر حال ان کا موقف درست ہے کہ 85 ارب میں تو نئی ایئر لائن کھڑی ہو سکتی ہے۔ ایسی ایئر لائن کو یونین کے حوالے کر دیں تو کھڑے پاوں بیٹھ جائے گی۔ ویسے ہی ملی بھگت سے مک مکا کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک کھڑکنے سے بات ہو رہی تھی۔اس نے بڑی رازداری سے کہا کسی جائیداد پر قبضہ کرانا ہو یا قبضہ چھڑانا ہو تو بندہ حاضر ہے۔ اس سے مزید راز داری سے کان میں پھونک مارنے کے انداز میں پوچھا ، کیسے؟ تو اس نے بڑے گر اور کلیئے کی بات بتائی۔ کہا،قبضہ چھڑانا ہو تو ہمارا ایک بندہ قبضہ کرنے والے کن ٹٹوں کے پاس جاتا ہے ان کے لیے ہم بھی کن ٹٹے ہوتے ہیں۔ ان سے ڈیل کی جاتی یے کہ ہم ریڈ کریں گے تو تم نے بھاگ جاناہے۔ تیسرے دن تم ریڈ کرو گے تو ہم بھاگ جائیں گے تمہارا قبضہ برقرار رہے گا۔
پٹرول کی قیمت میں اضافہ، حکومت نے کھبی دکھا کر سجی مار دی۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے کی خبروں پہ نظر ڈالیں تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی نوید سنائی جا رہی تھی۔ گو کہ تین سے 5 روپے کی کمی کی بات کی جا رہی تھی۔ جس گھر میں روزانہ کی بنیاد پر آدھ کلو آٹا دس روپے کلو کا گھی ، جو کوک کی بوتل کے ڈھکن میں سما جاتا ہے۔ خرید کر گھر چلایا جاتا ہو ان کے لیے پانچ روپے فی لیٹر کمی بھی بڑے معنی رکھتی ہے۔ آدھی رات کو اعلان ہوا تو پٹرول کی قیمت ایک روپے 35 پیسے فی لیٹر بڑھ گئی تھی۔ آدھی رات تک کمی کی خوشخبری کے منتظرین کو مایوسی ہوئی۔ باقی آدھی رات پریشانی میں کروٹیں بدلتے گزری۔ کچھ لوگوں کو یقین تھا کہ حکومت سرپرائز دیتے ہوئے دس پندرہ روپے فی لیٹر کمی کر دے گی۔ اس لیے کہ کچھ دوست ممالک نے 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر تازہ تازہ ملے ہیں۔ آئی ایم ایف نے کلائمیٹ کنٹرول کے لیے دو ارب ڈالرالگ سے دیئے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب سعودی ارب گئے وہاں سے بڑی خوشخبریاں ملیں۔ قطر نے بھی بڑے تعاون کا وعدہ کیا۔ یہ وعدے سچے اور پکے وعدے ہیں۔ وعدہ فردا نہیں ہیں۔پھوکے فائر نہیں ہیں۔ اتنی سرمایہ کاری کا سن کر اور سوچ کر عوام کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی تھی۔ اب وہی آنکھیں حکمرانوں کو گھور رہی ہیں۔
جج ابوالحسنات پر میرا غصہ جائز نہ تھا، مجھے افسوس ہے۔جسٹس گل حسن اورنگ زیب۔
یہ کسی ضمانت کا کیس تھا جس پر جسٹس صاحب ڈویڑن بنچ میں بیٹھے غصے میں آگئے۔ ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اپنے رویے پر معذرت کر لی۔ یہ معذرت انہوں نے اخلاقی طور پر کی ہے۔ یہ کوئی قانونی تقاضہ نہیں تھا۔ ابوالحسنات خصوصی عدالت کے جج ہیں۔ بڑے بڑے فیصلے کر چکے ہیں، کچھ برقرار رہے کچھ اگلی عدالت میں جا کر خارج ہو گئے۔ ہائیکورٹ کے ججز کے بھی کئی فیصلے سپریم کورٹ میں جا کر برقرار نہیں رہتے۔ سپریم کورٹ کے ججز کے بھی کئی فیصلے انٹرا کورٹ اپیل میں یا بڑے بنچ کی طرف سے مسترد کر دیئے جاتے ہیں۔ ہائر فورم کو قانون کے مطابق فیصلے کو کالعدم کرنے کا اختیار حاصل ہے تو پھر برہمی اشتعال اور غصے کا اظہار مناسب نہیں۔ اگر وقتی طور پر غصہ آبھی جائے تو اس پر معذرت خواہانہ رویے کا اظہار بھی خال خال ہی دیکھا گیا ہے۔ کئی جج صاحبان سماعت کے دوران ملزم کو اور وکیل کو الٹا لٹکا نے کی دھمکی دیتے بھی دیکھے گئے۔شٹ اپ بھی کئی کی زبان سے سنا گیا۔ لوگ ججوں کے کنڈکٹ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ ایسے ججوں سے کسی نے کیا سیکھا ہوگا۔ بنچ میں بیٹھ کر ساتھی ججوں کو جواب آں غزل کی صورت میں جواب دیتے تھے۔ یہ بھی سنا گیا کہ اضافی اور اختلافی نوٹس میں کہا گیا کہ فلاں فیصلے کو ماننا ضروری نہیں، انکار کی صورت میں توہینِ عدالت نہیں لگے گی۔ ہمارے ہاں ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ سپریم کورٹ میں ایک دوسرے کے مقابل دو عدالتیں لگتی تھیں۔ دو چیف جسٹس بنے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک تو غلط ہوگا۔ عام لوگ کس کی تقلید کرتے؟