وزیراعظم شہبازشریف کے سعودی عرب اور  قطر کے دورے کے مثبت نتائج

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے دو روزہ دورہ قطر کے دوران قطر کے امیر شیخ تمیم بن آل ثانی اور اپنے ہم منصب قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان ثانی سے ملاقاتیں کیں۔ دوحہ میں ون آن ون اور وفود کی سطح پر ہونیوالی ان ملاقاتوں کو وزیراعظم شہبازشریف نے نتیجہ خیز قرار دیا۔ انہوں نے دوحہ میں امیر قطر سے ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات کے وسیع معاملات پر تبادلہ خیال کیا جبکہ اس ملاقات میں تجارت‘ سرمایہ کاری اور توانائی میں تعاون پر غور کیا گیا۔ دوران ملاقات فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسل کشی پر بھی گفتگو کی گئی اور خطے میں کشیدگی بڑھنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے فلسطین کے معاملہ پر قطر کے موقف کی تعریف کی اور فوری جنگ بندی کیلئے قطر کی ثالثی اور انسانی امداد کی فراہمی کو سراہا۔ شہبازشریف نے کہا کہ غزہ میں امن کے بغیر دنیا میں خوشحالی ممکن نہیں۔ انہوں نے امیر قطر کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ 
قبل ازیں وزیراعظم شہبازشریف نے قطری ہم منصب شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی سے ملاقات کی اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے قطر کے تعاون کو سراہا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات میں مزید استحکام کیلئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری‘ توانائی اور ثقافتی تبادلے جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ قطری وزیراعظم نے خطے میں پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت کے تناظر میں اقتصادی ترقی اور علاقائی استحکام کے قطر کے وژن کے مطابق پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت کا حامل قرار دیا۔ شہبازشریف نے اپنے ہم منصب قطری وزیراعظم کے ہمراہ قطر میوزیم میں منظر آرٹ گیلری کا دورہ بھی کیا اور کہا کہ قطر میوزیم میں پاکستانی فن پاروں پر مبنی منظر آرٹ گیلری کا قیام دونوں ممالک کے مابین سماجی اور بھائی چارے کے مضبوط تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ دریں اثناءوزیراعظم شہبازشریف نے ”ایکس“ پر اپنی پوسٹ میں تحریر کیا کہ پاکستان قطر کے ساتھ اپنی خصوصی دوستی کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس دورے میں ہم پاک قطر تعلقات کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔ 
دریں اثناءوزیراعظم شہبازشریف نے دوحہ میں قطری میوزیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قطر ہمارا دوسرا گھر ہے‘ وہ قطر کے امیر کی جانب سے قطر کے دورے کی دعوت پر انکے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قطر نمائش کے ذریعے پاکستان کے ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ نمائش پاکستان اور قطر کے درمیان مضبوط تعلقات کی عکاس ہے۔ ہم قطر کی قیادت کے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط کرنے کے عزم کو سراہتے ہیں۔ قطر میں مقیم پاکستانی دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم برادر ہڈ کے جذبے کے تحت پاکستان کے برادر اسلامی ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ دیرینہ تعلقات استوار ہیں جن کے دکھ سکھ سانجھے ہیں اور اس ناطے سے ان تینوں برادر مسلم ممالک کے ساتھ اقتصادی اور سٹرٹیجک مراسم بھی استوار ہیں۔ ان برادر ممالک نے پاکستان کو درپیش ہر چیلنج میں پاکستان کا بے لوث ساتھ دیا ہے اور اسکی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں معاونت کی ہے۔ اسی ناطے سے سعودی عرب میں منعقدہ اقتصادی کانفرنس کے موقع پر امیر قطر نے وزیراعظم شہبازشریف کو دورہ قطر کی دعوت دی اور وہ اپنا دورہ سعودی عرب مکمل کرنے کے بعد قطر کے دورے کیلئے روانہ ہو گئے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے جہاں سعودی عرب کے تعاون سے پاکستان کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے عزم کا اظہار کیا وہیں انہوں نے پاکستان کے ساتھ قطر کے اقتصادی تعاون کو بھی سراہا۔ انہوں نے قطر میں قطر انوسٹمنٹ اتھارٹی اور قطر بزنس مین ایسوسی ایشن کے وفود سے بھی ملاقاتیں کیں۔ بے شک پاکستان برادر مسلم ممالک سے اپنے تجارتی اور معاشی تعلقات کو اپنی معیشت کے استحکام کیلئے فروغ دے رہا ہے جس سے پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیراعظم سعودی عرب اور قطر کے دورے کے دوران واضح الفاظ میں عندیہ دے چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا موجودہ بیل آﺅٹ پیکیج آخری پیکیج ہوگا اور پاکستان کی معیشت اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو جائیگی۔ 
یہ امر واقع ہے کہ آئی ایم افی کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کے طے پانے والے معاہدوں کی بدولت ہی پاکستان کی معیشت اور اسکے عوام بدحالی کا شکار ہوئے اور ہمارے ہر حکمران نے آئی ایم ایف کی ناروا شرائط من و عن قبول کرکے عوام کو مہنگائی کے عفریت کے آگے دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس پر عوام مضطرب ہو کر حکومتی پالیسیوں کیخلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں تو جہاں حکومت مخالف جماعتوں کو عوام کے بپھرے جذبات اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے وہیں حکومتی گورننس کا سوال بھی اٹھتا ہے جس سے لامحالہ پورے سسٹم پر زد پڑنے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں عوام بھی یہ سوچنے اور سوال اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جب ہمالیہ سے بلند‘ شہد سے میٹھی اور سمندروں سے گہری دوستی کا حامل چین بھی ہمارے ساتھ بے لوث تعاون کر رہا ہے اور ہمیں کم سے کم شرح سود پر بیل آﺅٹ پیکیج دے رہا ہے اور اسی طرح برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے بھی ہمیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے مل رہے ہیں جو ہماری معیشت کو سہارا دینے کیلئے ہمارے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں تو پھر باربار آئی ایم ایف کے در پر کشکول لے کر جانے کی مجبوری ہمیں کیوں لاحق ہوتی ہے جبکہ یہ ساہوکار ادارہ سود سمیت اپنے قرض کی واپسی کیلئے پاکستان کے عوام کے جسموں سے خون تک نچوڑنے کے اہتمام میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ 
وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ سعودی عرب کے باعث پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا حجم اس وقت 2.8‘ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ سرمایہ کاری معاہدوں کی تعداد بڑھ کر 34 ہو گئی ہے۔ اسی طرح پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے اپریشنل ہونے سے پاکستان کی علاقائی اور عالمی منڈیوں تک رسائی کے راستے بھی کھل رہے ہیں۔ اس تناظر میں سی پیک کو خطے کی ترقی کیلئے گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے جس کے ساتھ منسلک ہونے والے خطے کے ممالک علاقائی امن و استحکام بھی یقینی بنانے کی کوشش کرینگے۔ اس تناظر میں تو ہم مثالی ترقی و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام بھی پیدا ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہ ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن