بچپن سے ہم سُنتے آرہے ہیں کہ آئین بڑا مقدس ہے۔ اس کا احترام ہر کسی پر ضروری ہے، جو آئین شکنی کا مرتکب ہو اُس پر آرٹیکل 6لگتا ہے۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے آرہے ہیں کہ آئین کو کس کس طرح پامال کیا جاتا ہے بلکہ پاﺅں تلے روندا جاتا ہے۔ زبانی طور پر آئین کے مقدس ہونے کا وِرد کرنا اور پھر اُسے پاﺅں تلے روندنا یہ دونوں کام آئین بنانے والا حکمران طبقہ خود ہی کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو آرٹیکل 6کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ چند سال قبل ایک سیاسی پارٹی نے جنرل مشرف پر آرٹیکل 6لگانے کی ٹھان لی، جس کے لیے خصوصی عدالت بھی بنائی گئی تو جنرل صاحب خصوصی عدالت میں پیش ہونے کیلئے روانہ ہوئے مگر CMHمیں جا کر داخل ہو گئے۔ پھر خصوصی عدالت سمیت سارا کچھ ہی ختم ہوگیا۔ ہمارا مقدمہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ قانون سازوں (حکمران طبقے) سے ہمارا سوال یہ ہے کہ 1973ءکا آئین کیا سارا مقدس اورپوتر ہے یا اُس کی کچھ شِقیں مقدس ہیں؟ اس میں ایک شِق 251(1) قومی زبان اُردو کے نفاذ کے بارے بھی درج ہے۔ 77سال سے بڑی ڈھٹائی سے اس کی توہین ہو رہی ہے، آخر کیوں؟ بانی¿ پاکستان سے محترم کون ہے؟ جنھوں نے ایک بار نہیں بار بار مختلف موقعوں پر واضح طور پرفرمایا تھا کہ اس ملک کی قومی و سرکاری زبان اُردو اور صرف اُردو ہو گی۔ اُنکے ارشادات کو دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ پھر 1973ءکا متفقہ آئین بنایا گیا جس میں سنہری حروف میں لکھا ہے کہ پندرہ سال تک یعنی 1988ءتک قومی زبان کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا مگر 36سال سے ہر حکومت کی طرف سے مسلسل یہ آئین شکنی ہورہی ہے۔ یہ تو قائد اعظم بانی¿ پاکستان کا حکم بھی تھا اور آئینی تقاضا بھی۔ مگر نہ تو عدلیہ اس بات کا نوٹس لیتی ہے بلکہ ججز صاحبان بڑے دھڑلے سے اپنے فیصلے انگریزی میں لکھتے ہیں۔ وکلاءسے بحث مباحثہ بھی انگریزی میں فخریہ انداز سے کرتے ہیں۔ چند سال قبل چیف جسٹس جواد ایس خواجہ باقاعدہ حکم بھی صادر کر چکے ہیں۔ مگران قانون سازوں اور آئین کے مقدس ہونے کے دعویداروں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ انھوں نے آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے ہیں۔ اب تو اِن کی آئین شِکنی کا یہ عالم ہے کہ آج سپریم کورٹ ایک فیصلہ دیتی ہے۔ یہ اُس پر عمل کرنے کی بجائے راتوں رات نئی ترمیم لے آتے ہیں۔ ایسے دن تو گزارے جا سکتے ہیں، ملک نہیں چلائے جا سکتے۔ 77سال میں ہم اپنی زبان کو نافذ کیوں نہیں کر سکے؟ حالانکہ یہ تو ہماری قومی سلامتی و ہم آہنگی کی ضامن ہے۔ ہر زندہ اور غیرت مند قوم کو اپنی ثقافت عزیز ہوتی ہے اور وہ اُسے کسی قیمت پر بھی مِٹتے ہوئے یا برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ چاہے اس کے لیے اُسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو حصولِ پاکستان کا باعث بنا اگر ہمارے دِلوں میں اپنی ثقافت کی محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کی تہذیب میں جذب ہونے پر تیارہوتے اور اپنی انفرادیت کوقائم کرنے کے لیے ان سب مصائب کا مقابلہ کبھی نہ کرتے جوہمیں پاکستان کے حصول کی راہ میں پیش آئے لیکن آج 77سال بعد بھی ہم ابھی تک اپنی قومی زبان اُردو کو فروغ نہیں دے سکے بلکہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہیں۔ ہمارے دل میں اپنی کسی روایت سے وابستگی اور اپنی میراث کے کسی حصہ سے لگاﺅ کا شائبہ بھی نہیں رہا۔ ہمارے احساسِ کمتری کا یہ حال ہے کہ ہمارے مکانوں، محلوں، راستوں، اداروں، کارخانوں حتیٰ کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاءتک کے نام غیر ملکی ہیں۔ ہمیں اپنی ثقافت مقدم اور عزیز کیوں نہیں ہے؟ آج ہمارے بچے اُن کتابوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہیں جو کبھی ہمارے لئے مشعلِ راہ تھیں۔ اگر دوسروں کی تہذیب وتمدن کو اختیار کر کے یا تنگ قمیصوں ، چست پتلونوں او ر جسم کی ساخت کی نمائش سے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں جگہ مل جاتی تو پھر کیا تھا۔ نہ کتب خانے کی ضرورت تھی، نہ کسی جامعہ کی، نہ کسی دانش کدہ کی نہ کسی تحقیقی ادارہ کی نہ مطالعہ اور جستجو کی۔
آج پوری دنیا میں تعلیم اُن کی اپنی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے حکومتی ارکان جہاں بھی جائیں خطاب اپنی زبان میں کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ 77سال بعد بھی ہم اپنے بچوں کو ایک غیر ملکی زبان میں تعلیم دینے پر لگے ہوئے ہیں۔ بخدا اُنہیں ”رٹا“ لگانا پڑتا ہے۔ اپنی زبان میں لکھنے پڑھنے کی بجائے ہم تو رومن کی طرف چل نکلے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جو کہ بدقسمتی سے قانون ساز بھی ہیں بخدا نااہل ہیں۔ نہ اُنہیں ملکی سلامتی سے غرض ہے نہ اپنے ملک کی عزت کی فکر ہے۔ انہیں شاید قیامِ پاکستان کے مقاصد کا علم بھی نہ ہو۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور لوٹ کھسوٹ میں لگے رہتے ہیں۔ خدارا اپنی زبان کو نافذ کریں۔ یہ پوری قوم میں واحد رابطے کی زبان ہے۔ صوبائی زبانوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے مگر اُردو کو اپنائیے۔ مولوی عبدالحق نے کہا تھا کہ انگریزی کو بھی اُردو میں پڑھایا جائے تو آرٹیکل 6کی آوازیں اگر سُنائی دے رہی ہیں جنھوں نے 1988ءسے آج تک قومی و سرکاری زبان کو عملی طورپر نافذ کرنا ضروری نہیں سمجھا تو آرٹیکل 6اُن پر بھی لگنا چاہیے۔ آئین شکنی کے مرتکب ہونے پر ہی آرٹیکل 6لگتا ہے۔
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں“ میں دھوم ہماری زباں کی ہے