ویسے تو 1971ءسے گنگا طیارے کے اغوا سے لے کر 1999ءمیں آئی سی 814 تک کئی بھارتی مسافر جہاز ہائی جیک کر کے پاکستان لائے گئے۔ ان میں سے گنگا کے بعد1981ءمیں آئی سی 423 اسکے بعد 1984ءمیں آئی سی421 اور 1999ءمیں آئی سی 814 کو بڑی شہرت ملی۔ گنگا طیارہ بھارت نے سازش کر کے ہائی جیک کرایا تھااور آئی سی421 پرواز بھی۔30جنوری 1971ءکو راجیو گاندھی نے گنگا طیارہ اڑانا تھا۔ گو یہ ڈراما ہائی جیکنگ تھی پھر بھی راجیو گاندھی کو اس فلائٹ میں جانے سے روک دیا گیا۔ یہ طیارہ گراو¿نڈ ہوچکا تھا۔ جسے اڑان کے قابل بنا کر سری نگر سے جموں کی پرواز کے لیے بھیجا گیا۔ یہ پاکستان آیا اور اس کو ”مجاہدین“ نے آگ لگا دی۔ اسی کو جواز بناتے ہوئے بھارت نے پاکستان کو اپنی حدود استعمال کرنے سے منع کر دیا۔ یہی وہ دن تھے جب انڈیا مشرقی پاکستان میں محاذ جنگ گرم کر رہا تھا۔
1981ءمیں آئی سی 423کو ہائی جیک کر کے پاکستان لایا گیا۔1971ءمیں جن دنوں گنگا ہائی جیک ہوا بھارت میں اندرا گاندھی جبکہ پاکستان میں جنرل یحییٰ خان اقتدار کے ایوانوں میں براجمان تھے۔ آئی سی423کے اغوا کے دورانیے میں اندرا گاندھی ایک بار پھر وزیر اعظم بن چکی تھیں۔ پاکستان میں جنرل ضیاءالحق، ذوالفقار علی بھٹو کوعدالت سے پھانسی لگوا کر آرمی ہاو¿س کو ایوان صدر میں تبدیل کئے بیٹھے تھے۔ 24اگست1984ءکو سکھوں کے سات رکنی گروہ نے کرپانیں دکھا کر آئی سی421پرواز کو اغوا کر لیا تھا۔ اسے بھی پاکستان لایا گیا۔ یہ جہاز لاہور سے کراچی اور پھر دبئی چلا گیا۔ اس دوران بھی اندرا گاندھی وزیراعظم اور جنرل ضیاءالحق پاکستان میں سیاہ سفید کے مالک تھے۔ اس ہائی جیکنگ کے دو ماہ بعد اندرا گاندھی کو انکے سکھ محافظوں نے فائرنگ کر کے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ اندرا گاندھی کی جگہ راجیو گاندھی وزیر اعظم بنائے گئے۔ ان کا سیاست میں عمل دخل نہیں تھا۔ وہ انڈین ایئر لائن میں پائلٹ تھے۔ ان کی پوری توجہ اپنے پیشے پر تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی سنجے گاندھی باقاعدہ کسی ایئر لائن میں پائلٹ نہیں تھے، شوقیہ ہوا بازی کرتے تھے۔ وہ اندرا گاندھی کے سیاسی جاں نشیں تھے جو جہاز چلاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے۔ لہٰذا اندراگاندھی کی موت پر راجیو کو وزیر اعظم بنایاگیا۔
فلائٹ آئی سی421 خالصتان کے سات شدت پسندوں نے ہائی جیک کی۔ جون1984ءمیں گولڈن ٹیمپل پر آپریشن ، بلیو سٹار ہو اجس میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ مارے گئے۔ اسی انتقام میں اندرا گاندھی کا مرڈر ہوا۔یہ فلائٹ دہلی سے براستہ چندی گڑھ سری نگر جا رہی تھی۔اغوا کاروں نے اسے لاہور لے جانے سے پہلے امرتسر لے جانے کا حکم دیا جہاں گولڈن ٹیمپل کے دو چکر لگائے گئے۔ جیسے وہ طیارہ اغوا کر کے نہیں لے جا رہے بلکہ ابا جی نے چارٹر کروا کے دیا تھا۔گنگا کی طرح یہ طیارہ بھی بھارت کی طرف سے خود ہی ہائی جیک کروایا گیا تھا۔یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اندرا گاندھی نے جنرل ضیاءالحق سے ایک بار پھر ویسا ہی کمانڈو آپریشن کرنے کی درخواست کی تھی جو 1981ءمیں کیا گیا تھا۔مگر بھارت کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے اس دفعہ اس طرح کا تعاون نہیں کیا گیا۔ ہائی جیک کی گئی پرواز421 میں ایک خاص مہمان کے سبرامینم موجود تھے۔یہ بھارت کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انلسز کے ڈائریکٹر تھے۔یہ بہت ہی خاص پوسٹ ہے۔ اغوا کاروں کا گولڈن ٹیمپل آپریشن کے حوالے سے کوئی مطالبہ ہو سکتا تھا۔مگر یہ امریکہ جانے کی ضد کرتے رہے۔ان سب کو دبئی میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔گرفتار ہائی جیکروں نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ یہ سبرامنیم ہی تھے جنہوں نے پاکستان میں جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کے لیے ہائی جیکنگ کی پوری منصوبہ بندی کی تھی۔
اس سے قبل 423 فلائٹ کے ہائی جیکروں کا مطالبہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ساتھیوں کو رہا کرنے کا تھا۔29 ستمبر1981ءکو دہلی سے سرینگر جانے والی پرواز 5 سکھ نوجوانوں تیجندر پال سنگھ، ستنام سنگھ، گجندر سنگھ، کَرن سنگھ اور جسبیر سنگھ چیمہ نے کر پانیں دکھاکر ہائی جیک کی۔ ایک نے بڑے جذباتی انداز میں کرپان سے اپنا ہاتھ کاٹ کر لہو کے قطرے ٹپکاتے ہوئے ڈائیلاگ مارا کہ اپنے مقصد کے لیے اپنا خون دے اور کسی کا لے بھی سکتے ہیں۔جہاز میں 111 مسافر اور عملے کےچھ افراد سوار تھے۔ بھارتی حکام کی طرف سے پاکستان کے ساتھ رابطہ کیا گیا۔ جنرل ضیاءالحق نے بھارت کی درخواست پر تعاون کیا۔ جنرل ایس کے لودھی کور کمانڈر لاہور تھے۔ انہوں نے جس طرح پلان تیار اور اس پر عمل کیا۔ل، اس سے ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔ کمانڈوزکسی نہ کسی بہانے ریکی کر چکے تھے۔ ہائی جیکرز نے 5لاکھ ڈالرز اور بھنڈرانوالہ کی رہائی کی صبح دس بجے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اس سے کئی گھنٹے قبل ہی یہ سارے حراست میں لئے جا چکے تھے۔ہائی جیکروں نے کچھ مسافروں کو پہلے ہی رہا کردیاتھا۔انکی حراست میں 45 موجود تھے جن کو بحفاظت نکال لیا گیا۔ہائی جیکر اتنے ”عقل مند اور ہوشیار“ تھے کہ دو جہاز سے اتر کر اشنان کرنے چلے گئے۔ اس سے قبل وہ میڈیا ٹاک بھی کر چکے تھے۔ جہاز میں تین ہائی جیکر موجود تھے۔ ان میں سے ایک کو کمانڈو نے کندھے سے دھکا دے کر دروازے سے باہر پھینک دیا۔ دو کو آسانی سے قابو کر لیا گیا۔جنرل ضیاءالحق کے حکم پر تمام مسافروں کو فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ان کو پر تکلف کھانا کھلانے کے ساتھ لاہور کی سیر کرائی گئی۔ بھارتی حکومت نے کمانڈو ایکشن کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ انڈین کیبنٹ کےاجلاس میں پاکستان کے اس کردار کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
گنگا طیارے کے اغوا کے دوران لاہور ایئر پورٹ پر ساجد خان گراو¿نڈ ٹریفک کنٹرول کی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ وہ کاکپٹ میں ری فیولنگ کے بارے پوچھنے پائلٹ کے پاس گئے اور پائیلٹ اس وقت طیارہ کاکنٹرول سنبھالے ”مجاہدین“ کے پاس گئے تھے۔ اسی طرح 1981ءمیں بھی یہ والنٹیئر کے طور پر اسی مقصد کیلئے کاکپٹ میں گئے۔ بعد میں بریگیڈیئر بننے اور ایک نمائشی پیرا جمپنگ کے دوران شہید ہونے والے طارق محمود المعروف ٹی ایم نے بھی ان کے ساتھ کاکپٹ میں جانے کی خواہش کی تو ان کو ڈانگری پہنوا کر انجینئر کے طور پر ساتھ لے گئے۔ ٹی ایم کیلئے یہ ریکی کا بہترین موقع تھا۔
کل اسی موضوع پر میری بات ساجد خان صاحب سے ہوئی وہ کہتے ہیں کہ مسافروں اور کاکپٹ کریوز کی الگ الگ لسٹ ہوتی ہے۔ راجیو گاندھی کی ان دنوں معروف شخصیت نہیں تھی۔راجیو گاندھی کا نام کاکپٹ کریوز میں شامل تھا۔ آئی سی فلائٹ 423 کے پائلٹس کے بارے میں گوگل ،چیٹ جی پی ٹی اور یوٹیوب ،کسی جگہ بھی نہیں بتایا گیا۔ جنرل ضیاءالحق کی طرف سے اغوا کاروں سے جہاز کو چھڑانے کیلئے ذاتی اور گہری دلچسپی لی گئی تھی۔ کیا انکے علم میں آگیا تھا کہ اس جہاز کا پائلٹ وزیراعظم اندرا گاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی ہے؟ کیا بھارتی حکومت کے ایما پر راجیو گاندھی کا بطور پائلٹ نام اب تک اخفا میں رکھا گیا ہے؟۔راجیو گاندھی نے ڈیوٹی فری شاپ سے شاپنگ بھی کی۔ ان کے پاس پاکستانی کرنسی یا ڈالر نہیں تھے۔ انہوں نے انڈین روپوں میں ادائیگی کی تو عملے نے یہ کہہ کر روپے لوٹا دیئے کہ بل بڑا نہیں ہے۔ڈیڑھ دو سو روپے ہیں۔
جب راجیو گاندھی کا طیارہ ہائی جیک کر کے لاہور لایا گیا
Nov 02, 2024