امریکی خط کا جواب اور علی امین گنڈا پور سے درخواست!!!

Nov 02, 2024

محمد اکرم چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے بانی جیل میں ہیں ان کی قید کے دنوں میں پی ٹی آئی میں قیادت کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں پارٹی قیادت سے ناخوش ہیں اس حوالے سے ان کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ آکسفورڈ چانسلر الیکشن کا معاملہ ہو یا پھر اقوام متحدہ کو خط لکھے جانے کی بات ہو یا پھر اندرونی طور پر کسی موثر سیاسی تحریک کا مسئلہ ہو ہر جگہ پی ٹی آئی قیادت اختلافات کا شکار ہے، قیادت کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور پارٹی کسی بھی قسم کی موثر سیاسی حکمت عملی ترتیب دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ شیر افضل مروت اور سلمان اکرم راجہ، فواد چوہدری اور حامد خان سمیت نمایاں قیادت آمنے سامنے ہے۔ ان حالات میں کسی بھی سطح پر بات چیت کے لیے سازگار حالات کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کسی بھی سطح پر اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنی اہمیت منوانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ قیادت کے بدلتے بیانات، سیاسی سوچ میں شدت پسندی، عدم برداشت اور کمزور فیصلہ سازی کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ ایک وقت میں پی ٹی آئی نے امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیا لیکن اب امریکی کانگریس اراکین بانی پی ٹی آئی کی حمایت کے لیے متحرک ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت اس معاملے میں بھی اپنا موقف بہتر انداز میں پیش نہیں کر سکی۔ امریکی کانگریس کے اراکین نے بانی ٹی آئی کی رہائی کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا اس کے جواب میں پاکستان کے ایک سو ساٹھ اراکین پارلیمنٹ نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا ہے۔ پاکستانی ارکان پارلیمنٹ نے خط امریکی کانگریس کے باسٹھ ارکان کی پاکستان کی داخلی صورتحال میں مداخلت پر لکھا، ممبران پارلیمنٹ نے خط میں لکھا کہ ممبر بحیثیت پارلیمنٹیرین سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے ذریعے کانگریس ارکان کو آگاہ کریں، پاکستان جمہوری چیلنجز سے نبرد آزما ہے جسے انتہاپسندی کی سیاست نے مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے ریاستی اداروں کے خلاف سیاسی تشدد اور مجرمانہ دھمکیوں کومتعارف کرایا، 9 مئی 2023 کو بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی، ہجوم کو پارلیمنٹ، سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت اور ریڈیو پاکستان پر حملے کیلئے اکسایا۔ 
امریکی اراکین کانگریس کے جواب میں پاکستان کے پارلیمنٹیرینز کا جوابی خط جیسے کو تیسا ہے۔ بنیادی طور پر امریکی کانگریس اراکین کے اس عمل کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا جا سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی پر مختلف مقدمات ہیں، انہیں سزا بھی ہوئی ہے، ان کی قانونی ٹیم اس حوالے سے مسلسل کام بھی کر رہی ہے، امریکی کانگریس اراکین کا یہ عمل پاکستان کی عدالتی خود مختاری پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، یہاں کا اپنا آئین اور قانون ہے، تفتیشی و تحقیقاتی ادارے ہیں لہذا ایسا کوئی بھی خط کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں واضح طور پر مداخلت ہے۔ امریکی کانگریس کے یہ اراکین نجانے اس وقت کہاں سوئے ہوتے ہیں جب اسرائیلی افواج فلسطین کے مظلوموں اور نہتے انسانوں پر بم برساتے ہیں، یہ اراکین کانگریس اس وقت کہاں سوئے ہوتے ہیں جب ننھے منے بچوں کی زخموں سے چور اور بہتے خون کے ساتھ تصاویر منظر عام پر آتی ہیں، ہزاروں بچے گذرے چند ماہ میں دنیا سے چلے گئے لیکن امریکی اراکین کانگریس سوئے رہے، فلسطین ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا لیکن یہ سوئے رہے، بزرگوں کا خون بہا، خواتین کا خون بہا، عصمت دری ہوئی لیکن امریکی اراکین کانگریس سوئے رہے، کیا یہ ان کی ذمہ داری نہیں کہ ہزاروں انسانوں کا خوب بہتا رہے اور یہ آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں، بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ مقبوضہ کشمیر میں دہائیوں سے مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے لیکن امریکہ سمیت فیصلہ کرنے والوں میں کبھی بھارتی مظالم کی مذمت کا خیال نہیں آیا، مذمت تو دور کی بات ہے امریکہ نے تو مسلمانوں کی اس نسل کشی پر، خون کی ندیاں بہانے والے اسرائیل اور بھارت کی ہر سطح پر مکمل حمایت کی ہے۔ اگر امریکی اراکین کانگریس کو خط لکھنا ہے تو اپنے صدر کو بھارت اور اسرائیل کے مظالم پر خط لکھیں۔ ان کے پیٹ میں پاکستان کی اندرونی معاملات، سیاسی معاملات پر مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان میں نو مئی کو تشدد پسند افراد بغاوت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے، لوگوں کو اکسایا گیا، دفاعی اداروں پر حملہ آور ہوئے، شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا سیاسی ناکامی کو چھپانے کے لیے سادہ لوح لوگوں کو سڑکوں پر لا کر نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش سب نے دیکھی اس معاملے میں نہ تو کسی کے ساتھ زیادتی ہونی چاہیے نہ کسی ذمہ دار کو چھوڑنا چاہیے۔ بہرحال امریکی اراکین کانگریس سے سوال یہ ہے کہ ان کے ملک میں قانون کے مطابق کسی کو سزا سنائی جائے تو کیا کوئی ملک ان کے اندرونی معاملات میں ایسے مداخلت کر سکتا ہے، کیا وہ اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کو چیلنج کرنے والوں کو برداشت کریں گے۔ دنیا میں قانون کی حکمرانی کا دعوی کرنے والوں کو چاہیے کہ ذرا اپنے اس عمل پر غور کرتے ہوئے خود سے سوال کریں۔ 
شروع میں پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے حوالے سے لکھا ہے اس میں اضافہ کچھ یوں ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پورجیسے جذباتی شخص کو ایک اہم صوبے کی وزارت اعلیٰ سونپ دی گئی ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ کم اور گذرے وقتوں کی پنجابی فلموں کے ولن لگتے ہیں۔ وہ ہر وقت ایسے بیانات جاری کرتے ہیں کہ لگتا ہے ان کا مقابلہ مہنگائی، بے روزگاری، مافیا، سمگلروں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کی حکومت اور اداروں سے ہے۔ نجانے کس دنیا میں رہتے ہیں، کس سے حق چھیننا چاہتے ہیں، کس حق کی بات کرتے ہیں۔ اب پھر وہ بولے ہیں کہتے ہیں کہ اس دفعہ ہم فیصلہ کن جنگ کے لیے نکلیں گے، اب انقلاب کا وقت بہت جلد آئیگا، اس بارکفن باندھ کر نکلیں گے۔ ہمارا ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، صوبے میں بہت جلد سرمایہ کاری بحال کریں گے۔ صوبے کے وسائل بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ صوبے کی خودمختاری ضروری ہے، ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے ہیں، پاکستان میں آئین کی پاسداری اور قانون کی عملداری چاہتے ہیں، ہماری یہ جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی، یہ جنگ ہم جیتیں گے، کیونکہ یہ ہماری ذاتی جنگ نہیں یہ عوام کی جنگ ہے۔
صرف یہ سوال ہے کہ جناب وزیر اعلیٰ مسلسل تیسری مرتبہ صوبے میں آپکی حکومت ہے اب آپ نے صرف یہ نہیں کہنا کہ ہم فلاں کام کریں گے آپ نے یہ بھی بتانا ہے کہ گذرے گیارہ برسوں میں آپ نے کیا کچھ بدلا ہے۔ جہاں تک سرمایہ کاری لانے کا بیان ہے جناب وزیر اعلیٰ آپ نے یہ بھی بتانا ہے کہ گزرے برسوں میں اس حوالے کتنا کام کیا گیا ہے اور صوبے کو اس سے کتنا فائدہ ہو گا۔ گزارش ہے کہ بس کر دیں، ملک کے ساتھ بہت ہو گیا یہ مذاق، آپ کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں، آپ انقلاب لانا چاہتے ہیں تو حکومت آپ کے پاس ہے صوبے میں تعمیر و ترقی کا انقلاب لائیں، تعلیم کے شعبے میں، صحت کے شعبے میں، اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ فضول بیان بازی بند کر کے ملک و قوم پر رحم کریں۔ 
آخر میں عزم بہزاد کا کلام
میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا
اک  دن  بھی  اگر  اپنی  تنہائی  سے ڈر جاتا
میں  ترک تعلق  پر زندہ  ہوں سو مجرم ہوں
کاش اس  کے  لیے  جیتا  اپنے  لیے  مر  جاتا
اس رات کوئی خوشبو قربت میں نہیں جاگی
میں  ورنہ  سنور  جاتا اور وہ بھی نکھر جاتا
اس جان  تکلم کو  تم  مجھ  سے  تو  ملواتے
تسخیر   نہ   کر   پاتا  حیران   تو   کر   جاتا
کل  سامنے  منزل  تھی  پیچھے  مری  آوازیں
چلتا   تو  بچھڑ   جاتا   رکتا   تو   سفر   جاتا
میں شہر کی رونق میں گم ہو کے بہت خوش تھا
اک   شام   بچا   لیتا   اک   روز   تو   گھر   جاتا
محروم   فضاؤں   میں   مایوس   نظاروں   میں
تم  عزم نہیں  ٹھہرے  میں  کیسے   ٹھہر   جاتا

مزیدخبریں