عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
کیا آپ کبھی یہ سوچ سکتے تھے کہ بناء سیگریٹ پیئے بھی آپ کے پھیپھڑے کالے ہو سکتے ہیں؟جی ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔انڈیا میں جب ایک طبی سروے کے لیے بچوں کا معائنہ کیا گیا تو ان میں سے ایک بڑی تعداد کے پھیپھڑے کالے ملے۔ جس کی بڑی وجہ گذشتہ دس سالوں سے جاری سموگ بتائی گئی۔ آپ یاد کریں جب پہلی مرتبہ ہم نے سال 2014 کے اکتوبر اور نومبر میں سموگ کی اصطلاح سنی تھی تو کسی کو اس کا معلوم بھی نہ تھا بس فضاء میں ہلکا ہلکا دھواں سا معلوم ہوتا تھا۔ پھر ہر گزرتے سال اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب عالم یہ ہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس پوائنٹ جنھیں100سے نیچے ہونا چاہیے ‘فضائی آلودگی کے باعث اب 700
سے سے اوپر جا چکے ہیں جبکہ دنیا بھر کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور پہلے نمبر براجمان ہے۔ لاہور کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی سموگ نے ڈیڑے جمائے رکھے ہیں لیکن لاہور سب سے آگے ہے۔اسی وجہ سے پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ لاہور کے کم از کم 10 علاقوں میں گرین لاک ڈائون لگایا جائے گا۔ان میں ڈیوس روڈ، ایجرٹن روڈ، ڈیورنڈ روڈ، کشمیر روڈ، ایبٹ روڈ پر شملہ پہاڑی سے گلستان سینما تک کا علاقہ، ایمپریس روڈ پر شملہ پہاڑی سے ریلوے ہیڈ کوارٹرز تک کا علاقہ اور کوئین میری روڈ پر ڈیورنڈ روڈ سے علامہ اقبال روڈ اور گرد و نواح کے علاقے شامل ہیں۔
یوں تودمہ اور سانس کی بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے فضائی آلودگی زہر قاتل ہے البتہ تندرست افراد کے لیے بھی سموگ خطرے کی گھنٹی ہے۔فضاء پر چھائی خطرناک حد تک پھیلی سموگ کے باعث تقریبا ہر تیسرے چوتھے شخص میں فلو کی علامات پائی جا رہی ہیںجس نے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اگر ہر گزرتے سال کے ساتھ فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا تو اگلے چند سالوں میں ہم گھروں میں بھی صاف ہوا اپنے پھیپھڑوں تک نہیں پہنچا پائیں گے۔
لہذا نوائے وقت نے اپنے صحت ایڈیشن کے لیے پروفیسر ڈاکٹر جاوید مگسی،ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پلمونولوجی جنرل ہسپتال لاہور سے سموگ کے متعلق پیچیدگیوں پر خصوصی گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے۔
نوائے وقت:موجودہ سموگ ہماری صحت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر جاوید مگسی:یہ بالکل اس طرح ہے جیسے آپ صاف ہوا کی بجائے زہریلادھواںاپنے اندر لے کر جارہے ہوں۔یہ بزرگ افراد اور بچوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔اس کے علاوہ حاملہ خواتین، دل ،پھیپھڑے اور دماغ کے امراض میں مبتلا مریضوں کو سموگ خاص طور پر نقصان دیتی ہے۔ آنکھیں اور جلد حتی کے جسم کے تمام اعضاء پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سوال: ایئر کوالٹی انڈیکس کی وہ کونسی شرح ہے جو ہمارے پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہے؟
ایئر کوالٹی انڈیکس اگر 100 سے نیچے ہوتو فضا سانس لینے لیے موزوں ہے۔ 200 سے زیادہ ہوتوفضاء خطرناک اور اگر یہ 400 سے زیادہ ہوتو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں لاہور اور دہلی میں سموگ کی بڑی وجہ فصلوں کی باقیات کو جلانا ہے۔ گو کہ دوسرے عوامل بھی فضاء کومضر صحت بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان دو مہینوں میں سموگ کی خاص وجہ فصلوں کی باقیات کو جلانا ہے۔ کیونکہ ان مہینوں میں دھان کی کٹائی ہوتی ہے جس کے تھوڑے ہی عرصے بعد زمین کو گندم کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے بجائے یہ کہ کوئی جدید طریقہ اختیار کیا جائے ہمارے کسان بھائی زمین کو گندم کی بوائی کے لیے تیار کرنے کا جلد اور واحد حل دھان کی فصل کی باقیات کو جلانا سمجھتے ہیں۔
تقریبا دنیا بھر میں 25 اضلاع ہیں جہاں چاولوں کی سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہے۔ان میں سے دس اضلاع پاکستانی پنجاب میں آتے ہیں جبکہ 15 اضلاع انڈیا میں آتے ہیں۔ اسی دجہ سے اس خطے کو رائس پروڈیوسنگ بیلٹ کہا جاتا ہے۔
سوال :آپ کا کیا مشاہدہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں سموگ کے باعث پھیپھڑے کے امراض میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر جاوید مگسی:جی بالکل، چند سالوں سے پھیپھڑے کے مرض میں مبتلا مریضوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔سی او پی ڈی،دمہ یا آئی ایل ڈی کے مریضو ں کی تعداد بڑھی ہے۔یہ لوگ پہلے ہی اس مرض میں مبتلا اپنی زندگی مشکل سے گزار رہے ہیںلیکن اکتوبر اور نومبر ان کے لیے قہر بن کر آتا ہے۔سموگ بڑھنے سے ان مریضوں میں سے تقریبا 20 فیصد کو ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے۔سموگ سے پھیپھڑے سب سے زیادہ اس لیے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان ہی کے ذریعے ہم باہر کی ہوا اپنی ناک کے ذریعے جسم میں داخل کرتے ہیں۔اور موجودہ اے کیو آئی لیول تندرست افراد کو بھی متاثر کررہا ہے۔ نزلہ زکام، کھانسی، آنکھوں اور سینے میں جلن وغیر ہ سموگ سے متاثرہ افراد میں نمایاں علامات ہیں۔
سوال:سموگ کے اثرات سے بچائو کیسے ممکن ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر جاوید مگسی:ان دنوںغیر ضروری گھر سے باہر نہ نکلیں، خاص طور پر وہ لوگ جو پہلے سے ہی دل، پھیپھڑے ، آنکھوں یا دماغ کے امراض میں مبتلا ہیں وہ گھر سے بلا ضرورت نہ نکلیں۔
گھروں کی کھڑکیاں بند رکھیں۔ جب باہر سے آئیں تو ناک اور آنکھیں سادہ پانی سے دھوئیں۔باہر نکلنے پر ماسک کا لازمی استعمال کریں عینک پہنیں،پانی زیادہ سے زیادہ پیئں۔موٹر سائیکل سوار حضرات ماسک کے ساتھ ہیلمٹ کا استعمال کریں جبکہ وہ حضرات جو بچوں کو پیدل یا موٹر سائیکل پر سکول چھوڑنے یا لینے جاتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی خیال رکھیں، انہیں ناک پر ماسک اور آنکھوں کی حفاظت کے لیے چشمہ پہنائیں۔
کوڑا جلانے سے پرہیز کریں۔کوشش کریں کہ جہاں باربی کیو بن رہا ہو وہاں کھڑے نہ ہوں۔گھر اور گلی میں پانی کا چھڑکائو کرتے رہیں۔درختوں کو نہ بھولیں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ اگلے چند سالوں میں ہم صاف ہوا میں سانس لیں۔