سینٹ: 51 الیکٹرک وہیکل لائسنس جاری، نئی پالیسی آئے گی، میگا پراجیکٹس کیلئے فنڈز نہیں: حکومت

اسلام آباد (خبر نگار) ایوان بالا کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا ہے کہ بلوچستان کی ترقی موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے تاہم صوبوں کو ترقیاتی فنڈز کے بہتر استعمال کیلئے اپنی استعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان بالا میں ضمنی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ جمعہ کے روز اجلاس قائم مقام چیئرمین سینٹ سینیٹر سیدال ناصر کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر عبدالشکور خان کے ضمنی سوال پر وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہاکہ زرعی ترقیاتی بنک کا اپنا بورڈ موجود ہے اس میں نہ تو کوئی کوٹہ ہے اور نہ ہی حکومت کوئی بھرتی کرتی ہے۔ اس وقت 3822ملازمین زرعی ترقیاتی بنک کے پے رول پر موجود تھے۔ سینیٹر عبدالشکور نے کہا کہ بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں ہوتی ہیں جس پر وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہاکہ زرعی ترقیاتی بنک میں قانون، ضابطے اور میرٹ پر بھرتیاں ہوتی ہیں۔ سینیٹر ضمیر گھمرو نے کہاکہ اگر زرعی ترقیاتی بنک میں کوٹہ سسٹم نہیں ہے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے‘ جس پر وزیر مملکت نے کہاکہ اگر اداروں کو خود مختار بنائیں گے تو تب ہی ادارے بہتر ہوسکتے ہیں۔ سینیٹر کامران مرتضی نے کہاکہ زرعی ترقیاتی بنک کو بلوچستان میں برانچیں بنانے کی توفیق نہیں ہو رہی ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہاکہ اس ایوان میں چاروں صوبے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے معاملہ متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ سینیٹر دنیش کمار نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں اربوں کے منصوبے کب تک مکمل ہوں گے۔ 2009 اور 2011 سے منصوبے ابھی تک مکمل نہیں، جس پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہاکہ بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرنے کیلئے اقدامات اٹھانا بہت ضروری ہے۔ انہوںنے کہاکہ 2023/24میں بلوچستان کیلئے 126ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھے گئے تھے اور سب سے زیادہ فنڈز بلوچستان کو دئیے گئے اور اس سال بھی 130ارب روپے بلوچستان کیلئے رکھے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہاکہ وسائل کی کمی درپیش ہے جس کی وجہ سے پی ایس ڈی پی کو کم کر کے 4فیصد کردیا گیا ہے۔ اب وفاقی حکومت کے پاس میگا پراجیکٹس کیلئے بھی فندز نہیں ہیں۔ اس وقت ترقیاتی بجٹ کا حجم کم ہوچکا ہے‘ وفاقی حکومت کو 10ہزار ارب روپے ملتے ہیں جو قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور حکومت کو تنخواہوں ،ترقیاتی بجٹ اور دفاع سمیت دیگر اخراجات کیلئے ادھار لینا پڑتا ہے اسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ٹیکس کو بڑھائیں اور حکومت کے وسائل میں اضافہ کریں اور اخراجات میں کمی کریں۔ سینیٹر کامران مرتضی نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں ایسی حکومتیں بنائی جاتی ہیں جو بلوچستان پر فنڈز خرچ کرنے کی بجائے وفاق کو واپس کردیتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات اسی وجہ سے خراب ہیں۔ جس پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہاکہ کوئٹہ کیلئے واٹر سپلائی کی مد میں 10ارب روپے جاری کئے جو خرچ تو ہوگئے تھے مگر کوئی بھی پائپ نہیں لگایا گیا۔ اگر وسائل کا ضیاع صوبوں میں ہوگا تو اس سے مسائل بڑھیں گے۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے کہاکہ اس ایوان کو بتایا جائے کہ 18ویں ترمیم اور صوبوں کو اختیارات کی منتقلی پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے۔ تفصیل فراہم کی جائے۔ جس پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہاکہ میں نے18ویں ترمیم پر اعتراض نہیں کیا ہے۔ ہمیں صوبوں کی مرکزیت کو ختم کرنے کیلئے بلدیاتی سطح پر اختیارات کی منتقلی کیلئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سینیٹر منظور کاکڑ نے کہاکہ بلوچستان کے منتخب نمائندوں اور بیوروکریٹس کو کرپٹ کہا جارہا ہے۔ یہ 10ارب روپے سابق صدر مشرف کے دور میں دئیے گئے تھے۔ بلوچستان کے معدنیات بلوچستان کا ریکوڈک اور گوادر کتنا منافع دیتا ہے اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ آئی پی پیز سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔  احسن اقبال نے کہاکہ بلوچستان کیلئے فنڈز عوام کی فلاح و بہبود کیلئے دیا جاتا ہے۔  بلوچستان کی پسماندگی کو ترقی میں بدلنے کیلئے کوشاں ہیں۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ کے ضمنی سوال پر وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہاکہ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہورہی ہے۔ وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہاکہ الیکٹرک وہیکل کیلئے ملکی سطح پر 51لائسنس دئیے گئے ہیں جس میں دو وہیلر اور تھری وہیلر زیادہ ہیں اور زیادہ تر گاڑیاں برآمد بھی ہورہی ہیں۔ الیکٹرک وہیکل کے حوالے سے 30نومبر تک ایک پالیسی لا رہے ہیںے چارجنگ سٹیشن کا مسئلہ ہے، فکس کرنا ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر میں 40سٹیشنز لگائے جارہے ہیں۔ علی پرویز ملک نے بتایا ہے کہ حکومت ملک میں مہنگائی میں کمی اور صنعتوں کے فروغ کیلئے بھرپور اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اس موقع پر سینیٹر ذیشان خانزادہ نے توجہ دلائو نوٹس پر بات کرتے ہوئے کہاکہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ملکی صنعتوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی مہنگائی کی بڑی وجہ ڈالر کی قیمتوں میں اضافے سے ہے۔ اگر صنعتوں کو سہولیات دی گئی تو ہم برآمد ات میں زیادہ اضافہ کر سکتے تھے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ یہ درست ہے کہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے مسائل بڑھتے ہیں۔ سینیٹر طلال چوہدری نے کہاکہ دیوالی پر ہندو برادری کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسلام آباد میں چرھائی کی گئی اور اس میں ایک صوبے کے وزیر اعلی بھی پیش پیش تھے۔ احتجاج میں صوبے کے ملازمین بھی شریک تھے‘ یہ ملازمین کل رہا ہوئے تو ان کو وزیر اعلی ہائوس بلایا گیا اور پروموشن دینے کے ساتھ ساتھ ایک ہفتے کی چھٹی بھی دیدی گئی۔ انہوںنے کہا کہ اس بات کو وفاقی حکومت کو سیریس لینا چاہیے۔ اگر آج اس طرح ہوگا تو کل کوئی بھی صوبہ وفاق پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس پر جس طرح لندن میں حملہ کیا گیا اس سے پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑایاگیا۔ اس بات کی مذمت کرنی چاہیے اور اس طرح کی روایات کو نہیں اپنانا چاہیے۔ بعدازاں قائم مقام چیئرمین سینٹ سیدال خان نے اجلاس پیر کی سہ پہر ساڑھے چار بجے تک ملتوی کردیا۔

ای پیپر دی نیشن