اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس حسب سابق غریب اور نادار ملکوں کو امیدوں اور خوابوں کی تصویر دکھا کر ختم ہوا۔ پاکستان سے اس میلہ میں شرکت کے لئے صدر پاکستان صرف اپنے لوگ ہی لائے تھے۔ سرکردہ لوگوں میں خزانہ‘ خارجہ اور داخلہ کے وزیر نمایاں تھے۔ صدر کے پرنسپل سیکرٹری فاروقی صاحب سب پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ اسفند یار ولی خان اب امریکی انتظامیہ سے فاصلے کم کر چکے ہیں۔ امریکی بھی ان کا خاص خیال رکھتے نظر آتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ میں پشتو بولنے والے لوگ کبھی کبھی ان کو حیران بھی کر دیتے ہیں۔ اسفند یار ولی خان ایک عرصہ تک سرخ پوش تحریک کے دستہ دار رہے‘ روس سے خصوصی لگاؤ رہا۔ افغان جنگ میں اور اس سے پہلے بھی امریکی ان کے نزدیک سامراجی تھے اور دنیا کے امن کے لئے خطرہ تھے۔ اب وہ ہی امریکہ ان کا نجات دہندہ ہے اور صوبہ سرحد امریکی امداد کے حوالے سے تجرباتی منصوبہ ہے۔ اے این پی اس وقت ایم کیو ایم کی طرح امریکی انتظامیہ کی آنکھوں کا تارہ اور مستقبل کی امید ہے۔ امریکی انتظامیہ اور اس کے ادارے سرکارِ پاکستان کی بجائے ان سیاسی جماعتوں کے وسیلہ سے امدادی رقوم کا استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں امریکی دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے افغانستان میں جنگ کی مورچہ بندی کے لئے صوبہ سرحد میں اپنا ’’مایا خان‘‘ پھیلانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ ہمارے سفیر محترم حسین حقانی کو کم از کم ان معاملات کا وجدان ہے اور ان کو اندازہ ہے کہ امریکی اب تک تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ سکے ہیں۔ وہ امریکیوں کی مشاورت پاکستان کے مفاد کے حوالے سے ضرور کر رہے ہیں مگر فوج کو اس سلسلہ میں صرف امریکی حکمت عملی سے اختلاف ہے۔ صدر پاکستان کے دورہ امریکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ سابق صدر فارغ جنرل مشرف نے جہاں سے ان تعلقات کو چھوڑا تھا پاکستان کی پیپلز پارٹی کی سرکار نے اس کو اس ہی جگہ سے ویسے ہی قائم کر رکھا ہے۔ اب کی بار اقوام متحدہ کی عمارت میں صدر پاکستان زرداری کے روپ میں امریکی انتظامیہ کو اپنی پوری دلجمعی سے تعاون کا یقین دلا رہے تھے۔ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور پاکستان کے مفاد میں ایسا کرنا ضروری ہے۔ فوج کو بھی اس مرحلہ پر اختلاف رائے نہیں ہے۔ میڈیا کے حلقوں میں خیال تھا کہ اس دفعہ پاک بھارت مذاکرات امریکہ میں ہونے کی وجہ سے مثبت نتائج کے حامل ہوں گے مگر بھارت نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھے گا۔ کشمیر کے لئے اس نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوامی ردعمل بھارت کے لئے کافی پریشانی کا باعث ہے مگر وزیراعظم بھارت منموہن سنگھ پاکستان پر اعتبار کو پاپ خیال کرتے ہیں۔ پاکستان امید رکھ رہا تھا کہ علاقائی صورت حال میں امریکہ بھارت پر اپنا دباؤ استعمال کرے گا اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے بند دروازے کو ایک دفعہ پھر کھولنے میں مدد دے گا۔ دونوں ملکوں کے وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس کے دوران ایجنڈے کے بارے میں متفق نہ ہو سکے اور ان کی ملاقات بس رسمی سی رہی‘ حسب توقع فوٹو شو بھی ہوا۔ بیک ڈور چینل ڈپلومیسی کے لئے دوبارہ متفق ہوئے۔ بس اس لئے ہوئی کہ پاکستان منوانے سے قاصر تھا اور بھارت امریکی سرزمین پر کوئی بھی بات کرنے پر تیار نہیں تھا۔ امریکی دوستوں کا رویہ بہت ہی حیران کن رہا‘ وہ اس عمل میں بالکل غیر جانبدار رہے اور یہی بھارت چاہتا تھا سو اس لحاظ سے بھارت کی منصوبہ بندی کامیاب رہی۔ امریکی سرزمین پر صدر زرداری کا دورہ 20 ستمبر سے 26 ستمبر تک رہا۔ اس میں اقوام متحدہ کے سلسلہ میں مصروفیت بھی تھی۔ (جاری ہے)