پاکستان کی حدود میں داخل ہونیوالا ہر ڈرون اور ہیلی کاپٹر مار گرایاجاناچاہئے... نیٹو سپلائی کی بحالی عافیہ کی رہائی سے بھی مشروط کی جائے

Oct 02, 2010

سفیر یاؤ جنگ
افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے میں نیٹو ہیلی کاپٹرز کی دو کارروائیوں میں ایف سی کے تین اہلکار شہید اور تین زخمی ہوگئے۔ حکام کے مطابق دونوں کارروائیاں جمعرات کی صبح کرم ایجنسی میں کی گئیں۔ حکومت پاکستان نے ان کارروائیوں کے جواب میں زمینی راستے سے افغانستان میں نیٹو کی سپلائی بند کردی اور پاک فضائیہ کو الرٹ کردیا گیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے دو ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کی حدود کے200 میٹر اندر واقع فرنٹیئر کور کی پوسٹ پر فائرنگ کی۔ چوکی پر موجود6 اہلکاروں نے جواباً رائفل سے یہ بتانے کیلئے کہ ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں ہوائی فائر کئے۔ نیٹو ہیلی کاپٹروں نے انتباہ پر توجہ دینے کی بجائے چوکی پر دو میزائل داغ دئیے۔ ایساف ترجمان کا موقف ہے کہ نیٹو طیارے اپنے دفاع کیلئے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ طیاروں نے اپنے دفاع کیلئے فائر کئے جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون نے کہا ہے کہ پاکستان سے نیٹو سپلائی بحال کرنے کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔
پاکستان اور پاکستانیوں کے مقدر کا وہ بدقسمت لمحہ تھا جب ایک فوجی آمر نے امریکہ کی پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے کی دھمکی سے خوفزدہ ہوکر سرنڈر کردیا۔ مشرف کے اس اقدام کے باعث امریکہ نے پاکستان کی بری، بحری اور فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ انفراسٹرکچر مکمل طورپر تباہ کردیا لاکھوں افراد کو خاک اور خون میںملا دیا، طالبان حکومت کا خاتمہ کیا پھر افغانستان میں پاکستان کی مدد سے جنگ کے شعلوں کا رخ آہستہ آہستہ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ جس کے نتیجے میں آج پاکستان امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا الائو بن چکا ہے۔
اس جنگ کی بدولت عاقبت نااندیش سابق اور موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کی محافظ فوج کو امریکہ کی ڈکٹیشن پر اپنے ہی لوگوں کے مقابل کھڑا کردیا۔ دونوںطرف اپنے ہی لوگ، اپنی ہی بندوق اور اپنے ہی سینے۔ اسی نامراد جنگ میں تین ہزار فوجی افسروں اور جوانوں سمیت 10ہزار سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں۔35لاکھ افراد بے گھر ہوئے، معیشت ڈوب چکی ہے، سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان45 ارب ڈالر کے نقصان سے دوچار ہوا۔ ڈرون حملوں میں اکثر خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں۔ اتحادیوں کی طرف سے ہونے والے ان ڈرون حملوں کے باعث ہی انتقاماً خود کش حملہ آور پورے ملک کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اب ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے بھی پاکستان کی راہ دیکھ لی ہے۔ چند روز قبل نیٹو طیاروں نے پاکستانی حدود میں گھس کر پچاس کے قریب افراد کو مار ڈالا کہا گیا کہ یہ لوگ افغانستان میں کارروائیاںکرکے یہاں چھپے تھے۔ اب پھر اسی بودی دلیل کو بنیاد بنا کر چوکی پر حملے کا جواز گھڑا گیا ہے۔ اگر کوئی افغانستان میں کارروائی کرتا ہے تو اسے پاکستانی سرحد پر آنے ہی کیوں دیا جاتا ہے۔ کیا ان لوگوں کی رفتار جہازوں سے زیاد ہے؟ اتحادیوں نے پاک افغان سرحد پر موجود اپنی چوکیاں کیوں ختم کیں اس لئے کہ جنگجوئوں کوافغانستان یا پاکستان میں داخل ہونے کا جواز فراہم کیاجائے اور اس جواز کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیاجائے۔ سی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا نے اعتراف کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے نیٹو اور ایساف فورسز کو صرف افغانستان کے اندر کارروائی کامینڈیٹ دے رکھا ہے، صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی سے ملاقات کے دوران لیون نے یقین دلایا کہ پاکستان کی خود مختاری کا پوری طرح احترام کیاجائیگا۔ ڈرون حملے بھی پاکستان کی خود مختاری اور وقار کے صریحاً خلاف ہیں۔ ایساف اور نیٹو کے پاس افغانستان کے باہر کارروائیوں کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے پھر بھی حملے ہوتے ہیں اور بار بار ہوتے ہیں۔ یہ غلطی نہیں بد معاشی ہے۔اس کا امریکی انتظامیہ پتہ چلائے کہ اس بدمعاشی کے پیچھے کون ہے اگر خود امریکہ اور اس کی چھتری تلے بندوق اٹھائے اتحادی ملوث ہیں تو لیون کا بیان منافقت کا شاہکار ہے۔
گزشتہ روز کیری لوگر بل کے خالق جان کیری سے وزیراعظم گیلانی نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈرون اور نیٹو حملوں پر اظہار تشویش کیا۔ پاکستان کو اظہارِ تشویش کرتے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا۔ اس سے کوئی فائدہ ہوا؟ حملے جاری ہیں۔ بے گناہ افراد کا خون بہہ رہا ہے انتقام لینے والے حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ گورنر خیبر پی کے اویس غنی نے وفاق کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور نیٹو حملوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں۔
قبائلی علاقوں میں پاکستانی فورسز اور طالبان کے مابین مذاکرات جاری ہیں جس کے باعث آہستہ آہستہ بدامنی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ حالات معمول پر آرہے ہیںیہی اتحادیوں کوگوارا نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے مطابق نیٹو حملوں کا مقصد پاکستان پر شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے دبائو ڈالنا ہے۔
پاکستان آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ کسی کی کالونی یا جگزارریاست نہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق، نیٹو اور ایساف کی نئی مہم جوئی کے جواب میں پہلے اقدام کے طورپر نیٹو کی سپلائی بند کردی گئی ہے یہ کام بہت پہلے ہوجاناچاہئے تھا۔ دراصل پاکستان میں امریکہ کی بہیمانہ کارروائیوںکا یہی درست جواب اورعلاج ہے۔ وزیر مملکت امتیاز صفدر وڑائچ نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی آئندہ حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی پر بحال ہوگی۔ یہی نہیں حکومت پاکستان کو اب قوم کی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ کی جنگ سے جان چھڑالینی چاہئے ۔جس کا مشورہ گورنر خیبر پی کے نے بھی دیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کی جنگ میں پاکستان کوجھونک کر خسارے کا سودا کیا اس سے ملکی سلامتی، خودداری،خود مختاری اور وقار پر بہت بڑا دھچکہ لگا ہے۔ اگر نیٹو کی سپلائی بحال کرنی ہے تو ڈرون اور نیٹو حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ اسے قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی سے بھی مشروط کیاجائے۔ نیٹو سپلائی کی مشروط بحالی کے بعد اگر ڈرونز یا ہیلی کاپٹر زپاکستان کی حدود میں داخل ہوں تو نیٹو کی سپلائی مستقل طورپر بند کردی جائے اور پاک فضائیہ کو اجازت دیدی جائے کہ ان کو موقع پر گرا دیں۔ پاک فضائیہ میں خدا کے فضل سے اتنی صلاحیت ضرورموجود ہے کہ پاکستان کی حدود میں داخل ہونیوالے ہر جہاز کو مار گرائے۔
بابری مسجد ۔ ہائیکورٹ کا فیصلہ تعصب پر مبنی ہے
الہ آباد ہائیکورٹ نے متعصبانہ فیصلہ میں بابری مسجد کی متنازعہ اراضی کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دے دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق بابری مسجد کی جگہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، دو حصے ہندوؤں اور ایک مسلمانوں کو ملے گا۔
متعصب ہندوؤں بنیا ججوں سے ایسے ہی متنازعہ فیصلے کی توقع کی جا سکتی تھی جو حکومتی چھتری کے زیر سایہ سیاسی بنیادوںپر کیا گیا۔ پانچ سو سالوں تک غیر متنازعہ رہنے والی بابری مسجد پر دو اور دعوے کیسے تسلیم کر لئے گئے، کیا مسجد کے ساتھ مندر بننے اور اذان کے ذات گھنٹیاں بجنے اور نماز کے وقت بُتوں کی پوجا کرنے سے امن عامہ کا مستقل مسئلہ پیدا نہیں ہو جائے گا اور بعد کی صورت حال حکومت کیلئے دردِ سر بنی رہے گی۔ شہنشاہ بابر پر کسی متعصب ہندو بنیے نے الزام کیوں نہ لگایا جو بادشاہ اپنی رعایا کے مذہب کے معاملے پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا، جو عبادت گاہوں کی حفاظت پر یقین رکھتا تھا آخر اس نے مندر گرا کر مسجد کیوں بنائی مسجد کیلئے جگہ کی کمی تھی؟ اس سارے تنازع کو ہَوا متعصب شرنارتھی ہندو ایڈوانی جو پاکستان کا تحفہ ہے نے دی جو اب کہہ رہا ہے کہ مسلمان اب متھرا اور کاشی بھی ہمارے حوالے کریں، کیا یہ بیانات اور متنازعہ فیصلے بھارت میں بسنے والے 25 کروڑ اور پورے عالم میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہے، کیا یہ فیصلہ سیکولر بھارت کے منہ پر زودار طمانچہ نہیں ہے۔ بھارت کے ایسے ہی متعصب رویوں سے تنگ ہو کر بھارتی 25 کروڑ مسلمان ایک اور پاکستان کے قیام کی تحریک شروع کر دیں گے۔ متعصب ہندو ججز کے فیصلے نے بھارت میں آج ایک اور دو قومی نظریے کی بنیاد رکھ دی ہے، او آئی سی اس معاملے کو سلجھانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اسلامی ممالک بھارت پر پریشر ڈالیں۔ بھارت کو سیکولر سمجھنے والے اس کا خبثِ باطن دیکھ لیں کیونکہ وہ خود ہی مصنف ٹھہرا ہے اور اس کے منصف متنازعہ فیصلہ دیکر ریٹائر ہوگئے کہ اب رام رام کریں۔
گوشوارے جمع کرانا قومی فریضہ ہے
ذرائع کے مطابق وزیراعظم سمیت 50فیصد ارکان نے گوشوارے جمع نہیں کرائے جبکہ ترجمان کے مطابق گیلانی نے کرادئیے ہیں۔
تمام ارکان حکومت اور ارکان اسمبلی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائیں کیونکہ یہی وہ پیمانہ ہے جو کرپشن پر گرفت کرتا ہے یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ اب تک 50فیصد ارکان نے گوشوارے جمع نہیں کرائے کیا یہ گڈ گورننس کی علامت ہے یا اس کی ضد اور اگروزیراعظم نے بھی تا حال اپنے گوشوارے جمع نہیں کرائے اور ترجمان کے بقول انہوں نے کرادئیے ہیں تو یہ گومگو کی صورتحال خود وزیراعظم واضح کردیں کیونکہ الناس علی دین ملوکھم، کے تحت باقی تمام ارکان اُن کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں اور یوں ایک رسم بھی چل نکلے گی، جو اثاثے چھپانے کے زمرے میں آتے ہیں، گوشواروں کے حوالے سے یہ بات عام ہے کہ اکثرو بیشتر یہ غلط ہوتے ہیں اور اصل اثاثے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں یہ ایک ایسا جرم ہے جو اس دنیا اور دوسرے جہاں میں گرفتنی ہے ہم ان سطور میں ارکان سے درخواست کرینگے کہ وہ اپنے اصل اثاثے ہی گوشواروں میں ظاہر کریں یہ بات غیر واضح نہیں کہ حقیقی گوشوارے پیش نہ کرنا ایک طرح کالے دھن کا مالک ہونے کی دلیل ہے بہرحال جن پچاس فیصد ارکان نے ابھی تک گوشوارے پیش نہیں کئے وہ اپنا حساب درست رکھیں اور یہ فرض جلد از جلد ادا کردیں۔
پنجاب حکومت کی ڈونرز کانفرنس اچھا اقدام
پنجاب حکومت کی ڈونرز کانفرنس میں شرکاء نے 21 سو گھر بنانے اور عطیات دینے کا وعدہ کیا۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے دنیا مدد کرے۔
میاں محمد شہباز شریف غریبوں کا دردِ دل رکھنے والے شخص ہیں، سیلاب متاثرین کے لئے ان کی بھاگ دوڑ، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا اور پھر لوگوں کو خود پانی سے نکال کر محفوظ مقام تک پہنچانا اور کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانا ان کا ایسا کارنامہ ہے جس کی اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی تعریف کی ہے۔ متاثرہ خاندانوں کو ایک لاکھ روپے فی خاندان دلوانے کے لئے وہ سرگرم ہیں، امید ہے وہ انشاء اللہ جلد اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بہرحال میاں شہباز شریف کی طرح اگر صوبائی وفاقی وزراء بھی کوششیں کرتے ان کے دل میں بھی غربا کا درد ہوتا تو یقینی طور پر آج متاثرین کافی حد تک اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو جاتے۔
ڈونرز کانفرنس کے اخراجات ایک وزیر کی طرف سے اپنی جیب سے پورے کرنا بھی خوش آئند ہے۔
ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ کانفرنسوں کے ذریعے اتنے فنڈ نہیں ملتے جتنے اخراجات آ جاتے ہیں تاہم اب وزیر صاحب کہی محکمے سے اخراجات پورے کرنے کی نہ ٹھان لیں۔ وفاقی اور دیگر صوبوں کی حکومتوں کو بھی پنجاب حکومت کے اس اچھے کام کی تقلید کرنی چاہیے جس کا سہرا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سر پر ہے۔
مزیدخبریں