مصطفی کمال پاشا
19مارچ 2003: امریکی صدر جارج بش نے امریکی عوام سے خطاب میں صدام حسین اور اسکی بعث پارٹی کی عراق پر حکومت کیخلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے کہا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی اور جرثومی ہتھیار ہیں اور کیونکہ صدام حکومت کے القاعدہ نیٹ ورک کیساتھ روابط بھی ہیںاسلئے ان سے امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہیں اسلئے صدام حسین کی حکومت کو ختم کر کے تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں پر قبضہ کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا کو القاعدہ کے ممکنہ دہشت گرد حملوں سے بچایا جا سکے۔
21 مارچ2003 : ایک لاکھ امریکی فوجی کویت سٹی میں جمع تھے انکے ساتھ برطانیہ، آسٹریلیا، پولینڈ کے علاوہ 36 دیگر نیٹو ممالک کی سپاہ بھی خلیج کے دیگر مقامات پر جمع کئے گئے تھے تاکہ آپریشن عراقی فریڈم (OIF) کا آغاز ہوتے ہی یہ افواج اطراف سے عراق پر حملہ آور ہو سکیں۔ انہیں 70,000کردش عراقی ملیشیا کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔ اسطرح مجموعی طور پر 248000 اتحادی سپاہ عراق پر حملہ آور ہوئیں اور انہوں نے یکم مئی تک آپریشن عراقی فریڈم کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا۔اس دوران امریکی برطانوی بمبار جیٹ طیاروں نے سینکڑوں نہیں ہزاروں پروازیں کیں۔ بارود سے لدی اڑانیں بھریں اور عراقی شہروں وقصبوں کو ریت و خون میں نہلا دیا۔
اس وقت مغربی ذرائع کیمطابق صدام حسین کی زیر کمان 538,000 افراد پر مشتمل فورس تھی جس میں 375,000 آرمی، 20 ہزار نیوی، 20 ہزار ائیر فورس، 17 ہزار ائیر ڈیفنس کی افرادی قوت شامل تھی۔ اسکے علاوہ 44 ہزار صدام فدائین، 8 ہزار ریپبلیکن گارڈز اور 65 ہزار ریزرو فورس کی افرادی قوت بھی شامل تھی اسکے علاوہ شام سے آنیوالے رضاکار اور اردنی مجاہد مصعب الزرقاوی کی انصار الاسلام کے800 لڑاکا مجاہد بھی امریکی اتحادیوں کیخلاف مبینہ طور پر صف آراء تھے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ساری قوت کچھ بھی کئے بغیر امریکی اتحادی حملہ آوروں کیخلاف ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ امریکی اتحادی افواج کوآپریشن عراقی فریڈم کے دوران کسی موثر اور منظم مزاحمت کا سامنانہ کرنا پڑا امریکی افواج کے جنرل ٹومی فرنیک نے مئی 2003 کے آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ اتحادیوں نے اس آپریشن سے پہلے نہ صرف عراقی جرنیلوں کو بلکہ بعث پارٹی کے عہدیداروں کو بھی خرید لیا تھا کسی قابل ذکر مزاحمت کی عدم موجودگی کی یقین دہانی کے بعد حملہ کیا گیا یہ وجہ ہے کہ صدام حسین کی گرائونڈ اور ائیر فورسز اسکے کام نہ آسکیں حتیٰ کہ عرب نیشنل ازم کی داعی بعث پارٹی بھی عجمی امریکیوں کیخلاف اپنے عرب سپوت (صدام حسین) کیساتھ کھڑی نہ ہوئی انہوں نے غداری کی اور تاریخ میں بدکردار کے طور پر رقم ہو گئے۔ ایک عیسائی دانشور مائیکل افلاک کے ہاتھوں تراشا گیا عرب نیشنل ازم کا بت، بعث ازم بالآخر امریکی یورپی عیسائیوں کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ بعث پارٹی نے مشکل وقت میں اپنے عرب بیٹے کی بجائے عیسائی حملہ آوروں کاساتھ دیکرغداروں کی تاریخ دھرائی ۔ جسطرح ہندو کبھی بھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا اس طرح یورپی امریکی عیسائی کبھی عرب مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ صدام حسین کے بغداد میں نصب مجسمے کے سرنگوں ہوتے ہی عراق میں بعث ازم اپنی موت آپ مر گیا۔ عربوں میں نفاق کا بویا جانے والا بیج عراق میں تباہی بربادی پھیلانے کے بعد موت کی گھاٹ اتر گیا لیکن مرنے سے پہلے سینکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں عراقیوں کو فنا کی گھاٹ اتار گیا‘ زخمی کر گیا‘ مہاجر بنا گیا‘ ایک عظیم انسانی المیہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا۔
31 اگست 2010: 95 ہزار لڑاکا امریکی سپاہ کی رخصتی مکمل ہونے کے بعد واشنگٹن کی طرف سے عراق میں بساط جنگ لپیٹنے کا اعلان ہو چکا ہے اس طرح ساڑھے سات سال قبل عراق میں دھکائے جانیوالے جنگی جہنم کاخاتمہ ہو گیا ہے لیکن امن و امان اور خوشحالی کا دور دور تک پتہ نہیں۔ عراق کا حال تار تار ہے اور مستقبل کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔
اس جنگ میں امریکی عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ 1000 ارب ڈالر خرچ ہوئے مجموعی طور پر 5661 امریکی ہلاک ہوئے 34,268 زخمی و مجروح ہوئے۔ ہلاک ہونیوالے امریکیوں میں 4404 آپریشن عراقی فریڈم کے دوران اور 1251 آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم میں مارے گئے 50 ہزار غیر لڑاکا امریکی فوجی تعمیر نو کیلئے ابھی تک عراق میں موجود ہیںاور امن و امان کی مکمل بحالی تک یہاں قیام پذیر رہیں گے۔انکے قیام و طعام کے اخراجات عراق سے وصول کئے جائینگے۔ عراقی معیشت ناقابل برداشت قرضوں کے بوجھ تلے دب رہی ہے۔
القاعدہ کو تباہ برباد کر کے امریکی عوام کو محفوظ و مامون بنانے کے نعرے کو لیکر بش نے اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا پھر مارچ 2003 میں دہشت گردوں کو پناہ دینے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام لگا کر صدام حسین کے عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ حملہ آور ہونے سے پہلے امریکی و برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بھی پروپیگنڈہ کیا۔ کیمیائی ہتھیاروں کا بھی ذکر کیا گیا انٹیلی جنس ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر مشتمل رپورٹس بھی شائع کی گئیں۔ الیکڑانک میڈیا پر شور مچایا گیا امریکی عوام اور یورپی اتحادیوں کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ عراق پر حملہ اور صدام حسین کی تباہی انکے مفاد میں ہے اور پھر بہت بڑی فوجی افرادی و اسلحی قوت یہاں جمع کر کے جنگ کا آلائو دھکایا گیا۔
ڈیڑھ لاکھ امریکی سپاہ کے علاوہ 2 لاکھ سے زائد نجی وغیر سرکاری تنظیموں کے اہلکاروں اور کارندوں نے بھی یہاں جنگ میں حصہ لیا لڑاکا فضائی قوت اسکے علاوہ تھی۔ ہوائی بمباری کے ذریعے ہزاروں نہیں لاکھوں نہتے عراقی شہری شہید کر دیئے گئے۔اس وقت عراق ایک اجڑے ہوئے دیار کی مانند ہے۔جہاں ہر طرف تباہی و بربادی پھیلی ہوئی ہے بے پناہ معدنی دولت رکھنے کے باوجود عراق میںبھو ک ننگ راج کر رہی ہے۔ عراق پراتحادی افواج کے حملہ آور ہونے سے قبل 18 فروری 2003 کوروم میں 30 لاکھ افراد نے ممکنہ عراقی جنگ کیخلاف مظاہرہ کیا۔ 3 جنوری تا 12 اپریل 2003 کے دوران مختلف ممالک میں 4 کروڑ افراد نے بش کی دہشت گردی کیخلاف اعلان کردہ جنگ کیخلاف مظاہرے کئے لیکن بش پارٹی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی برآمدگی، امریکی مفادات کے حصول اور دنیا کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کی دھن میں آگے بڑھتی گئی۔جنگ کا دائرہ کار افغانستان سے بڑھا کر عراق تک پھیلا دیا گیا۔
سی ائی اے نے 2005 میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ عراق سے کسی قسم کے کیمیائی ، جرثومی یا ایٹمی ہتھیار نہیں ملے اور عراق پر حملہ آور ہونے سے قبل پیش کی جانیوالی رپورٹیں امریکی عوام اور عالمی رائے عامہ کو جنگ کے حق میں کرنے کیلئے دکھائی گئیں یہ کاروائیاںصدام حسین کیخلاف جنگی جنون کو فروغ دینے کیلئے پروپیگنڈہ کا حصہ تھیں یہی وجہ ہے کہ عراق میں لڑی جانیوالی جنگ اتحادیوں کی فتح کے اعلان کے بغیر ختم کی جا چکی ہے۔ عراق میں شیعہ اکثریت کی حکومت کے قیام کے ذریعے یہاں ایرانی اثرات بڑھ رہے ہیں حزب اﷲ پہلے ہی اسرائیل کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے خطے میںایران کے بعد ایک اور شیعہ ریاست کے قیام سے امریکی مفادات کا تحفظ کیسے ہو گا؟ کیا امریکی عوام محفوظ ہو گئے ہیں؟خلیجی ممالک کی تخلیق گزری صدی کے دوران استعماری قوتوں کے مفادات کے زیر اثر قائم کردہ نظام کا شاخسانہ ہے ۔ یورپی اقوام نے خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے بعد یہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تخلیق کیں اور یہاں شیوخ کو تخت نشین کیا جو انہی آقائوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں ان سب کو قابو میں رکھنے کیلئے اسرائیل قائم کیاگیا اور اسے بے پناہ عسکری و مالی مدد دیکر ایک طاقتورعلاقائی غنڈے کے مقام پر فائز کیا گیا۔ عربوں میں بعث ازم کے فروغ کے ذریعے نفاق کے بیج بھی بوئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب خطہ تیل کی بے پناہ معدنی دولت رکھنے کے باوجود ترقی کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جو اس کا حق ہے لیکن اب عراقی تباہ و بربادی کے بعد یہاں ایرانی شیعہ اثر و رسوخ کے بڑھنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں عراق میں مغربی جمہوریت کے ذریعے سنی اقلیت برسراقتدا ر نہیں آسکتی۔ کرد پہلے ہی سنی اقلیت کے ہاتھوں ایک عرصے سے تنگ ہیں اور انکے برسر پیکار ہیں یہی وجہ ہے کہ کرد ملیشیا نے صدام حسین کیخلاف امریکی اتحادیوں کا ساتھ دیا۔ ان حالات کے تناظر میں یہ بات واضع ہو رہی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ خطہ امریکی مفادات کا اسطرح قلعہ ثابت نہیں ہوگا جیسا کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے ثابت ہوتا رہا ہے اب امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کو نئے زمینی حقائق کی روشنی میں ترتیب دینا ہو گا۔
19مارچ 2003: امریکی صدر جارج بش نے امریکی عوام سے خطاب میں صدام حسین اور اسکی بعث پارٹی کی عراق پر حکومت کیخلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے کہا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی اور جرثومی ہتھیار ہیں اور کیونکہ صدام حکومت کے القاعدہ نیٹ ورک کیساتھ روابط بھی ہیںاسلئے ان سے امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہیں اسلئے صدام حسین کی حکومت کو ختم کر کے تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں پر قبضہ کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا کو القاعدہ کے ممکنہ دہشت گرد حملوں سے بچایا جا سکے۔
21 مارچ2003 : ایک لاکھ امریکی فوجی کویت سٹی میں جمع تھے انکے ساتھ برطانیہ، آسٹریلیا، پولینڈ کے علاوہ 36 دیگر نیٹو ممالک کی سپاہ بھی خلیج کے دیگر مقامات پر جمع کئے گئے تھے تاکہ آپریشن عراقی فریڈم (OIF) کا آغاز ہوتے ہی یہ افواج اطراف سے عراق پر حملہ آور ہو سکیں۔ انہیں 70,000کردش عراقی ملیشیا کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔ اسطرح مجموعی طور پر 248000 اتحادی سپاہ عراق پر حملہ آور ہوئیں اور انہوں نے یکم مئی تک آپریشن عراقی فریڈم کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا۔اس دوران امریکی برطانوی بمبار جیٹ طیاروں نے سینکڑوں نہیں ہزاروں پروازیں کیں۔ بارود سے لدی اڑانیں بھریں اور عراقی شہروں وقصبوں کو ریت و خون میں نہلا دیا۔
اس وقت مغربی ذرائع کیمطابق صدام حسین کی زیر کمان 538,000 افراد پر مشتمل فورس تھی جس میں 375,000 آرمی، 20 ہزار نیوی، 20 ہزار ائیر فورس، 17 ہزار ائیر ڈیفنس کی افرادی قوت شامل تھی۔ اسکے علاوہ 44 ہزار صدام فدائین، 8 ہزار ریپبلیکن گارڈز اور 65 ہزار ریزرو فورس کی افرادی قوت بھی شامل تھی اسکے علاوہ شام سے آنیوالے رضاکار اور اردنی مجاہد مصعب الزرقاوی کی انصار الاسلام کے800 لڑاکا مجاہد بھی امریکی اتحادیوں کیخلاف مبینہ طور پر صف آراء تھے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ساری قوت کچھ بھی کئے بغیر امریکی اتحادی حملہ آوروں کیخلاف ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ امریکی اتحادی افواج کوآپریشن عراقی فریڈم کے دوران کسی موثر اور منظم مزاحمت کا سامنانہ کرنا پڑا امریکی افواج کے جنرل ٹومی فرنیک نے مئی 2003 کے آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ اتحادیوں نے اس آپریشن سے پہلے نہ صرف عراقی جرنیلوں کو بلکہ بعث پارٹی کے عہدیداروں کو بھی خرید لیا تھا کسی قابل ذکر مزاحمت کی عدم موجودگی کی یقین دہانی کے بعد حملہ کیا گیا یہ وجہ ہے کہ صدام حسین کی گرائونڈ اور ائیر فورسز اسکے کام نہ آسکیں حتیٰ کہ عرب نیشنل ازم کی داعی بعث پارٹی بھی عجمی امریکیوں کیخلاف اپنے عرب سپوت (صدام حسین) کیساتھ کھڑی نہ ہوئی انہوں نے غداری کی اور تاریخ میں بدکردار کے طور پر رقم ہو گئے۔ ایک عیسائی دانشور مائیکل افلاک کے ہاتھوں تراشا گیا عرب نیشنل ازم کا بت، بعث ازم بالآخر امریکی یورپی عیسائیوں کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ بعث پارٹی نے مشکل وقت میں اپنے عرب بیٹے کی بجائے عیسائی حملہ آوروں کاساتھ دیکرغداروں کی تاریخ دھرائی ۔ جسطرح ہندو کبھی بھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا اس طرح یورپی امریکی عیسائی کبھی عرب مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ صدام حسین کے بغداد میں نصب مجسمے کے سرنگوں ہوتے ہی عراق میں بعث ازم اپنی موت آپ مر گیا۔ عربوں میں نفاق کا بویا جانے والا بیج عراق میں تباہی بربادی پھیلانے کے بعد موت کی گھاٹ اتر گیا لیکن مرنے سے پہلے سینکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں عراقیوں کو فنا کی گھاٹ اتار گیا‘ زخمی کر گیا‘ مہاجر بنا گیا‘ ایک عظیم انسانی المیہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا۔
31 اگست 2010: 95 ہزار لڑاکا امریکی سپاہ کی رخصتی مکمل ہونے کے بعد واشنگٹن کی طرف سے عراق میں بساط جنگ لپیٹنے کا اعلان ہو چکا ہے اس طرح ساڑھے سات سال قبل عراق میں دھکائے جانیوالے جنگی جہنم کاخاتمہ ہو گیا ہے لیکن امن و امان اور خوشحالی کا دور دور تک پتہ نہیں۔ عراق کا حال تار تار ہے اور مستقبل کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔
اس جنگ میں امریکی عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ 1000 ارب ڈالر خرچ ہوئے مجموعی طور پر 5661 امریکی ہلاک ہوئے 34,268 زخمی و مجروح ہوئے۔ ہلاک ہونیوالے امریکیوں میں 4404 آپریشن عراقی فریڈم کے دوران اور 1251 آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم میں مارے گئے 50 ہزار غیر لڑاکا امریکی فوجی تعمیر نو کیلئے ابھی تک عراق میں موجود ہیںاور امن و امان کی مکمل بحالی تک یہاں قیام پذیر رہیں گے۔انکے قیام و طعام کے اخراجات عراق سے وصول کئے جائینگے۔ عراقی معیشت ناقابل برداشت قرضوں کے بوجھ تلے دب رہی ہے۔
القاعدہ کو تباہ برباد کر کے امریکی عوام کو محفوظ و مامون بنانے کے نعرے کو لیکر بش نے اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا پھر مارچ 2003 میں دہشت گردوں کو پناہ دینے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام لگا کر صدام حسین کے عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ حملہ آور ہونے سے پہلے امریکی و برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بھی پروپیگنڈہ کیا۔ کیمیائی ہتھیاروں کا بھی ذکر کیا گیا انٹیلی جنس ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر مشتمل رپورٹس بھی شائع کی گئیں۔ الیکڑانک میڈیا پر شور مچایا گیا امریکی عوام اور یورپی اتحادیوں کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ عراق پر حملہ اور صدام حسین کی تباہی انکے مفاد میں ہے اور پھر بہت بڑی فوجی افرادی و اسلحی قوت یہاں جمع کر کے جنگ کا آلائو دھکایا گیا۔
ڈیڑھ لاکھ امریکی سپاہ کے علاوہ 2 لاکھ سے زائد نجی وغیر سرکاری تنظیموں کے اہلکاروں اور کارندوں نے بھی یہاں جنگ میں حصہ لیا لڑاکا فضائی قوت اسکے علاوہ تھی۔ ہوائی بمباری کے ذریعے ہزاروں نہیں لاکھوں نہتے عراقی شہری شہید کر دیئے گئے۔اس وقت عراق ایک اجڑے ہوئے دیار کی مانند ہے۔جہاں ہر طرف تباہی و بربادی پھیلی ہوئی ہے بے پناہ معدنی دولت رکھنے کے باوجود عراق میںبھو ک ننگ راج کر رہی ہے۔ عراق پراتحادی افواج کے حملہ آور ہونے سے قبل 18 فروری 2003 کوروم میں 30 لاکھ افراد نے ممکنہ عراقی جنگ کیخلاف مظاہرہ کیا۔ 3 جنوری تا 12 اپریل 2003 کے دوران مختلف ممالک میں 4 کروڑ افراد نے بش کی دہشت گردی کیخلاف اعلان کردہ جنگ کیخلاف مظاہرے کئے لیکن بش پارٹی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی برآمدگی، امریکی مفادات کے حصول اور دنیا کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کی دھن میں آگے بڑھتی گئی۔جنگ کا دائرہ کار افغانستان سے بڑھا کر عراق تک پھیلا دیا گیا۔
سی ائی اے نے 2005 میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ عراق سے کسی قسم کے کیمیائی ، جرثومی یا ایٹمی ہتھیار نہیں ملے اور عراق پر حملہ آور ہونے سے قبل پیش کی جانیوالی رپورٹیں امریکی عوام اور عالمی رائے عامہ کو جنگ کے حق میں کرنے کیلئے دکھائی گئیں یہ کاروائیاںصدام حسین کیخلاف جنگی جنون کو فروغ دینے کیلئے پروپیگنڈہ کا حصہ تھیں یہی وجہ ہے کہ عراق میں لڑی جانیوالی جنگ اتحادیوں کی فتح کے اعلان کے بغیر ختم کی جا چکی ہے۔ عراق میں شیعہ اکثریت کی حکومت کے قیام کے ذریعے یہاں ایرانی اثرات بڑھ رہے ہیں حزب اﷲ پہلے ہی اسرائیل کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے خطے میںایران کے بعد ایک اور شیعہ ریاست کے قیام سے امریکی مفادات کا تحفظ کیسے ہو گا؟ کیا امریکی عوام محفوظ ہو گئے ہیں؟خلیجی ممالک کی تخلیق گزری صدی کے دوران استعماری قوتوں کے مفادات کے زیر اثر قائم کردہ نظام کا شاخسانہ ہے ۔ یورپی اقوام نے خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے بعد یہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تخلیق کیں اور یہاں شیوخ کو تخت نشین کیا جو انہی آقائوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں ان سب کو قابو میں رکھنے کیلئے اسرائیل قائم کیاگیا اور اسے بے پناہ عسکری و مالی مدد دیکر ایک طاقتورعلاقائی غنڈے کے مقام پر فائز کیا گیا۔ عربوں میں بعث ازم کے فروغ کے ذریعے نفاق کے بیج بھی بوئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب خطہ تیل کی بے پناہ معدنی دولت رکھنے کے باوجود ترقی کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جو اس کا حق ہے لیکن اب عراقی تباہ و بربادی کے بعد یہاں ایرانی شیعہ اثر و رسوخ کے بڑھنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں عراق میں مغربی جمہوریت کے ذریعے سنی اقلیت برسراقتدا ر نہیں آسکتی۔ کرد پہلے ہی سنی اقلیت کے ہاتھوں ایک عرصے سے تنگ ہیں اور انکے برسر پیکار ہیں یہی وجہ ہے کہ کرد ملیشیا نے صدام حسین کیخلاف امریکی اتحادیوں کا ساتھ دیا۔ ان حالات کے تناظر میں یہ بات واضع ہو رہی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ خطہ امریکی مفادات کا اسطرح قلعہ ثابت نہیں ہوگا جیسا کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے ثابت ہوتا رہا ہے اب امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کو نئے زمینی حقائق کی روشنی میں ترتیب دینا ہو گا۔