رفیق ڈوگر............
ہندو ذہنیت اور منافقت کون بتائے گا اس بارے میں پاکستان کی نئی نسل کو اور حکمرانوں اور سیاستدانوں کی آوارہ نسل کو؟ ڈنڈوٹ کے راجہ سرتاج کہا کرتے تھے کہ ”میں تو پکا کانگریسی ہوتا تھا کانگریس والا سیاسی لباس پہنتا تھا اور جب لاہور میں آل انڈیا کانگریس کا جلسہ ہوا تھا جس کی صدارت نہرو نے کی تھی ڈنڈوٹ سے ہندو مسلمان کے جس جتھا نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی وہ میں ہی بنا کر لایا تھا اور پھر ہندو ذہنیت اور منافقت نے مجھے پکا مسلم لیگی بنا دیا تھا۔ وہ کیسے؟ راجہ صاحب بتاتے تھے کہ ان کے کسی عزیز کو بخار ہو گیا لاہور لائے میو ہسپتال کے ڈاکٹروں نے چیک کیا اور بتایا کہ اسے ٹی بی ہو رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے ہدایت کی کہ اسے واپس ڈنڈوٹ نہ لے جانا لاہور میں رکھو اور دوسرے تیسرے روز چیک کراتے رہو۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ہم ہسپتال سے قریب کوئی مکان کرایہ پر لینا چاہتے تھے تلاش کیا تو دیال سنگھ لائبریری کے پیچھے ایک مکان خالی مل گیا مکان کا کرایہ طے کرنے کے لئے ایک ہندو مجھے اس کے ہندو مالک کے پاس لے گیا اس عمارت میں جہاں مشرق اخبار کا دفتر ہوتا تھا۔ دیال سنگھ لائبریری کے سامنے میں نے وہی کانگریس والا لباس پہنا ہوا تھا کرایہ طے ہو گیا لکھنے لگے تو مالک مکان نے انکار کر دیا۔ مکان کرایہ پر دینے سے ”ہم نہیں چاہتے کہ ہندو آبادی میں کوئی مسلمان کرایہ پر رہے“ راجہ سرتاج بتایا کرتے تھے کہ وہ مالک مکان کانگریس کا نامی لیڈر ہوتا تھا اور وہی ڈنڈوٹ میرے پاس گیا تھا کہ کانگریس کے جلسہ میں شرکت کے لئے بڑا جتھا لانا۔ اس کے انکار کے بعد جب میں نے اسے کہا کہ آپ تو میرے پاس گئے تھے اور ہندو مسلم اتحاد کا کانگریسی علم اٹھانے والوں میں سے ہیں اور اب ہندو محلے میں اپنا مکان ایک کانگریسی مسلمان کو کرایہ پر بھی نہیں دینا چاہتے تو اس نے کوئی دلیل ولیل دئیے بغیر کہا تھا ”راجہ جی سچ وہی ہے جو میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہندو آبادی میں کوئی مسلمان رہے، اس کانگریسی لیڈر نے مجھ پر کانگریس کی منافقت واضح کر دی تو میں مسلم لیگ کے موقف کو ماننے پر مجبور ہو گیا تھا اور کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں آ گیا تھا مجھے تو مسلم لیگی کانگریس کی قیادت اور ہندو کی منافقت نے بنایا تھا۔ نظامی صاحب جن اساتذہ کو پاکستان کی نئی نسل کو ہندو کی منافقت سے آگاہ کرنے کو کہتے ہیں ان میں سے تو شاید ہی منافقت کا ذاتی تجربہ ہوا ہو گا چودھری ارشاد ڈوگر ایڈووکیٹ شیخوپورہ کی سیاست اور وکلا برادری کا ذاتی تجربہ بیان کیا تھا ”میں اجنالہ ہائی سکول میں پڑھتا ہوتا تھا استاد اکثر ہندو تھے طلباءمیں بھی مسلمان ایک دو ہی تھے۔ ہندو استاد گھر سے کرکے لانے کا کام چیک کرتے تو جو ہندو لڑکا کام کرکے نہیں لایا ہوتا تھا اس کی چمڑی ادھیڑ دیتے میں کام کرکے لایا ہوتا تھا اپنی کاپی دکھاتا تو وہ دیکھنے کی بجائے ”چودھری جی چھوڑیں آپ نے پڑھ کر کیا کرنا ہے آپ تو چودھری ہیں“ کہہ کر اگلے شاگرد کی کاپی دیکھنا شروع کر دیتے تھے۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ اپنی دعاﺅں میں یہ دعا بھی ہمیشہ شامل رکھ کہ ”اے اللہ مجھے دشمن کمینہ نہ دینا“ وہ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن تو ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ان کی تم سے دشمنی کی بنیاد تمہارا اپنا کوئی عمل ہو ان کے تمہارے دشمن ہو جانے کا سبب تمہارا اپنا مقام اور شرافت بھی ہو سکتی ہے۔ تمہاری اپنی کسی خصوصیت کی وجہ سے لوگ تمہاری عزت کریں اور ان کی ویسی عزت نہ کی جاتی ہو تو بھی اور کچھ لوگ تمہارے دشمن ہو جائیں اس لئے ہر حال میں اور ہر صورت میں یہ دعا اپنی دعاﺅں میں شامل رکھنا کہ ”اے اللہ مجھے دشمن کمینہ نہ دینا“ ہندو کی مسلمانوں سے دشمنی تھی ہے اور رہے گی وہ کبھی مسلمانوں کے دوست تھے نہ ہو سکتے ہیں اس کا ایک بنیادی سبب ان کی صدیوں کی غلامی اور خاص قسم کی بنی ہوئی ذہنیت بھی ہے ہندو قوم کو صدیوں میں کبھی حکمرانی نہیں ملی تھی اس لئے ان کے پاس حکمرانی کے لئے فراخ ذہنیت ہے اور نہ تجربہ ہے نہ وہ وسعت قلب و نظر ہے جس کا حکمران افراد اور قوموں میں ہونا لازم ہوتا ہے۔ شیخ عبداللہ نے نہرو کی دوستی پر بھروسہ کیا تو کیا پایا؟ اپنے خاندان اور کشمیری قوم کی غلامی؟ اگر وہ نہرو اور ہندو کی ذہنیت اور منافقت سے واقف ہوتا خود مخلص ہوتا تو وہ بھی راجہ سرتاج نہ بن گیا ہوتا۔ دہلی سے شائع ہونے والے ایک رسالے کو شیخ عبداللہ نے آخری عمر میں ایک تفصیلی انٹرویو دیا تھا اور نہرو کو ہی مان لینے کی اپنی غلطی کا کھل کر اعتراف کیا تھا جو کانگریس نہرو کو اور خود نہرو اپنے کو بتایا کرتا تھا اور بقول اپنے وہ اس ہندو منافقت کے دھوکے میں آ گیا تھا۔ وہ رسالہ ہم نے سنبھال کر رکھی کتب میں رکھا ہوا تھا اور ضیاءالحق کا ایک پڑھا پڑھایا سیکورٹی والا ہم سے مانگ کر لے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں کر سکا بقول اس کے وہ رسالہ منگوایا بھی ضیاءالحق نے تھا اور وہ انٹرویو پڑھ کر اس نے اسے واپس نہیں کیا تھا شیخ عبداللہ کا نہرو اور کانگریس اور ہندو کی منافقت کا وہ ذاتی اور تاریخی تجربہ اس قابل تھا اور ہے کہ ہر بچے کو سنایا جائے۔ معلوم نہیں شیخ عبداللہ کو کھڑی شریف والے میاں محمد کا یہ فرمان کیوں معلوم نہیں تھا کہ
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا
نیچ تو ہے رہے گا اس کی فطرت تو بدل ہی نہیں سکتی وہ کوئی فرد ہو قوم ہو حکمران ہو یا کوئی بھی ہو۔ لازم یہ ہے کہ اس کی فطرت اور اصلیت اور ذہنیت اور منافقت سے آگاہ، خبردار اور ہوشیار رہا جائے کہ نیچ تو نیچ ہے وہ کہیں بھی ہو۔
ہندو ذہنیت اور منافقت کون بتائے گا اس بارے میں پاکستان کی نئی نسل کو اور حکمرانوں اور سیاستدانوں کی آوارہ نسل کو؟ ڈنڈوٹ کے راجہ سرتاج کہا کرتے تھے کہ ”میں تو پکا کانگریسی ہوتا تھا کانگریس والا سیاسی لباس پہنتا تھا اور جب لاہور میں آل انڈیا کانگریس کا جلسہ ہوا تھا جس کی صدارت نہرو نے کی تھی ڈنڈوٹ سے ہندو مسلمان کے جس جتھا نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی وہ میں ہی بنا کر لایا تھا اور پھر ہندو ذہنیت اور منافقت نے مجھے پکا مسلم لیگی بنا دیا تھا۔ وہ کیسے؟ راجہ صاحب بتاتے تھے کہ ان کے کسی عزیز کو بخار ہو گیا لاہور لائے میو ہسپتال کے ڈاکٹروں نے چیک کیا اور بتایا کہ اسے ٹی بی ہو رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے ہدایت کی کہ اسے واپس ڈنڈوٹ نہ لے جانا لاہور میں رکھو اور دوسرے تیسرے روز چیک کراتے رہو۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ہم ہسپتال سے قریب کوئی مکان کرایہ پر لینا چاہتے تھے تلاش کیا تو دیال سنگھ لائبریری کے پیچھے ایک مکان خالی مل گیا مکان کا کرایہ طے کرنے کے لئے ایک ہندو مجھے اس کے ہندو مالک کے پاس لے گیا اس عمارت میں جہاں مشرق اخبار کا دفتر ہوتا تھا۔ دیال سنگھ لائبریری کے سامنے میں نے وہی کانگریس والا لباس پہنا ہوا تھا کرایہ طے ہو گیا لکھنے لگے تو مالک مکان نے انکار کر دیا۔ مکان کرایہ پر دینے سے ”ہم نہیں چاہتے کہ ہندو آبادی میں کوئی مسلمان کرایہ پر رہے“ راجہ سرتاج بتایا کرتے تھے کہ وہ مالک مکان کانگریس کا نامی لیڈر ہوتا تھا اور وہی ڈنڈوٹ میرے پاس گیا تھا کہ کانگریس کے جلسہ میں شرکت کے لئے بڑا جتھا لانا۔ اس کے انکار کے بعد جب میں نے اسے کہا کہ آپ تو میرے پاس گئے تھے اور ہندو مسلم اتحاد کا کانگریسی علم اٹھانے والوں میں سے ہیں اور اب ہندو محلے میں اپنا مکان ایک کانگریسی مسلمان کو کرایہ پر بھی نہیں دینا چاہتے تو اس نے کوئی دلیل ولیل دئیے بغیر کہا تھا ”راجہ جی سچ وہی ہے جو میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہندو آبادی میں کوئی مسلمان رہے، اس کانگریسی لیڈر نے مجھ پر کانگریس کی منافقت واضح کر دی تو میں مسلم لیگ کے موقف کو ماننے پر مجبور ہو گیا تھا اور کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں آ گیا تھا مجھے تو مسلم لیگی کانگریس کی قیادت اور ہندو کی منافقت نے بنایا تھا۔ نظامی صاحب جن اساتذہ کو پاکستان کی نئی نسل کو ہندو کی منافقت سے آگاہ کرنے کو کہتے ہیں ان میں سے تو شاید ہی منافقت کا ذاتی تجربہ ہوا ہو گا چودھری ارشاد ڈوگر ایڈووکیٹ شیخوپورہ کی سیاست اور وکلا برادری کا ذاتی تجربہ بیان کیا تھا ”میں اجنالہ ہائی سکول میں پڑھتا ہوتا تھا استاد اکثر ہندو تھے طلباءمیں بھی مسلمان ایک دو ہی تھے۔ ہندو استاد گھر سے کرکے لانے کا کام چیک کرتے تو جو ہندو لڑکا کام کرکے نہیں لایا ہوتا تھا اس کی چمڑی ادھیڑ دیتے میں کام کرکے لایا ہوتا تھا اپنی کاپی دکھاتا تو وہ دیکھنے کی بجائے ”چودھری جی چھوڑیں آپ نے پڑھ کر کیا کرنا ہے آپ تو چودھری ہیں“ کہہ کر اگلے شاگرد کی کاپی دیکھنا شروع کر دیتے تھے۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ اپنی دعاﺅں میں یہ دعا بھی ہمیشہ شامل رکھ کہ ”اے اللہ مجھے دشمن کمینہ نہ دینا“ وہ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن تو ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ان کی تم سے دشمنی کی بنیاد تمہارا اپنا کوئی عمل ہو ان کے تمہارے دشمن ہو جانے کا سبب تمہارا اپنا مقام اور شرافت بھی ہو سکتی ہے۔ تمہاری اپنی کسی خصوصیت کی وجہ سے لوگ تمہاری عزت کریں اور ان کی ویسی عزت نہ کی جاتی ہو تو بھی اور کچھ لوگ تمہارے دشمن ہو جائیں اس لئے ہر حال میں اور ہر صورت میں یہ دعا اپنی دعاﺅں میں شامل رکھنا کہ ”اے اللہ مجھے دشمن کمینہ نہ دینا“ ہندو کی مسلمانوں سے دشمنی تھی ہے اور رہے گی وہ کبھی مسلمانوں کے دوست تھے نہ ہو سکتے ہیں اس کا ایک بنیادی سبب ان کی صدیوں کی غلامی اور خاص قسم کی بنی ہوئی ذہنیت بھی ہے ہندو قوم کو صدیوں میں کبھی حکمرانی نہیں ملی تھی اس لئے ان کے پاس حکمرانی کے لئے فراخ ذہنیت ہے اور نہ تجربہ ہے نہ وہ وسعت قلب و نظر ہے جس کا حکمران افراد اور قوموں میں ہونا لازم ہوتا ہے۔ شیخ عبداللہ نے نہرو کی دوستی پر بھروسہ کیا تو کیا پایا؟ اپنے خاندان اور کشمیری قوم کی غلامی؟ اگر وہ نہرو اور ہندو کی ذہنیت اور منافقت سے واقف ہوتا خود مخلص ہوتا تو وہ بھی راجہ سرتاج نہ بن گیا ہوتا۔ دہلی سے شائع ہونے والے ایک رسالے کو شیخ عبداللہ نے آخری عمر میں ایک تفصیلی انٹرویو دیا تھا اور نہرو کو ہی مان لینے کی اپنی غلطی کا کھل کر اعتراف کیا تھا جو کانگریس نہرو کو اور خود نہرو اپنے کو بتایا کرتا تھا اور بقول اپنے وہ اس ہندو منافقت کے دھوکے میں آ گیا تھا۔ وہ رسالہ ہم نے سنبھال کر رکھی کتب میں رکھا ہوا تھا اور ضیاءالحق کا ایک پڑھا پڑھایا سیکورٹی والا ہم سے مانگ کر لے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں کر سکا بقول اس کے وہ رسالہ منگوایا بھی ضیاءالحق نے تھا اور وہ انٹرویو پڑھ کر اس نے اسے واپس نہیں کیا تھا شیخ عبداللہ کا نہرو اور کانگریس اور ہندو کی منافقت کا وہ ذاتی اور تاریخی تجربہ اس قابل تھا اور ہے کہ ہر بچے کو سنایا جائے۔ معلوم نہیں شیخ عبداللہ کو کھڑی شریف والے میاں محمد کا یہ فرمان کیوں معلوم نہیں تھا کہ
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا
نیچ تو ہے رہے گا اس کی فطرت تو بدل ہی نہیں سکتی وہ کوئی فرد ہو قوم ہو حکمران ہو یا کوئی بھی ہو۔ لازم یہ ہے کہ اس کی فطرت اور اصلیت اور ذہنیت اور منافقت سے آگاہ، خبردار اور ہوشیار رہا جائے کہ نیچ تو نیچ ہے وہ کہیں بھی ہو۔