پاکستان میں ایک طویل آمریت کے بعد فروری 2008ءمیں انتخابات ہوئے تو لوگوں نے بجا طور پر یہ توقعات قائم کیں کہ حالات سدھریں گے، مواقع بڑھیں گے اور معاشرے میں سلگتے ہوئے مسائل کے چنگل سے نجات ملے گی۔ لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“۔پانچ سال ہونے کو آئے ہیں، کوئی وعدہ ایسا نہیں جو وفاہوتا نظر آئے ، کوئی دعویٰ ایسا نہیں جس کی قلعی کھل نہ گئی ہو اور کوئی امید ایسی نہیں جو یاس میں تبدیل نہ ہو گئی ہو۔ پچھلے پانچ سالوں میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ وہی چال بے ڈھنگی، وہی ایڈہاک ازم، لوٹ مار کے نت نئے طریقے اور عوام کی خدمت سے عاری رویے اور منصوبے۔ زندگی کے تمام دائروں میں جس درجے لاقانونیت نظر آتی اوردکھائی دیتی ہے، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے روز افزوں واقعات جس طرح خوف اور دہشت کی فضا پیداکرتے ہیں، آفرین ہے کہ عوام نے تو اس صورت حال کا جرا¿ت و بہادری اور مصمم ارادے سے مقابلہ کیا ہے، ملک کی تعمیر نو میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے، قومی یک جہتی کو بھی پارہ پارہ ہونے سے بچایا ہے اور حکمرانوں کو بھی مسلسل آئینہ دکھایا ہے، لیکن خود حکمران جس طرح امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، اسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں، اس کے کہے پرعمل کرتے ہیں، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اسی سے اپنی پالیسی اور ترجیحات کا تعین کراتے ہیں، اس نے پاکستان کو غلامی کی بدترین صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی حکومت کا اصل سلوگن جمہوری حکومت ہونا رہا ہے مگر جو حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ مانتی ہو اور پارلیمنٹ کے فیصلوں اور قراردادوں کو رتی برابر اہمیت نہ دیتی ہو، وہ کس منہ سے اپنے آپ کو جمہوری حکومت کہہ سکتی ہے؟غیر جمہوری رویوں اور طور طریقوں کو اپنا کر جمہوریت کا لیبل لگانا
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے
کے مترادف ہے۔ حکومتی سطح پر اداروں کو باہم متصادم کرنے کی روش معاشرے کی چولیں ڈھیلی کر دیتی ہے، معاشرے کی پہچان گم ہو جاتی ہے، اس کا تشخص گہنا جاتا ہے اور معاشرہ اپنی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت زندگی کے تمام دائروں میں دیکھا جاسکتا اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان اور کراچی کے حالات میں ایک درجہ مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور عمومی طور پر اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے دکھوں کی دنیا بھی آباد ہے۔بلوچستان کو جس احساس محرومی نے آگھیرا ہے، اس کا مداوا احساس شرکت سے ہی کیا جا سکتاہے، محض زبانی جمع خرچ سے نہیں۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ اپنے وسائل میں سے اگر وہ اپنا حق طلب کرتے ہیں تو امانت و دیانت اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے اور وہاں کے وسائل کو وہاں کے مفلوک الحال عوام پر خرچ کیا جائے۔ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے بھی کوئی کام نہ کیا اور کسی کو علم نہیں کہ ایک سو سے زیادہ ارب روپے جو بلوچستان کے عوام کے لیے دیے گئے ہیں وہ کہاں گئے؟ صوبائی کابینہ میں تمام پارٹیاں شریک ہیں، تمام ایم پی اے وزیر بنے ہوئے ہیںاور اپنے لیے دونوں ہاتھوں سے وسائل اور مراعات اکٹھی کر رہے ہیں لیکن بلوچوں کو انھوں نے محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا براے تاوان کے حوالے سے حکومت سندھ میں شریک تینوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہیں اور ایک دوسرے کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں،اور جب وہ ایسا کہہ رہی ہوتی ہیں تو سچ بول رہی ہوتی ہیں۔
خیبر پختونخوا کی صورت حال بھی ابتری سے دوچار ہے۔صوبائی حکومت نے عوامی خزانے کی لوٹ مار کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے تین تین مرتبہ ہجرت پر مجبور کیا گیاہے، گھر سے بے گھر اور لاوارث بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لاتعداد سکول اور ہسپتال ہیںجو دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیںاور بین السطور یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ سوات جیسے ضلع میں تمام سکولوں کو اگر بھک سے اڑا دیا گیا تو یہ سارے واقعات کرفیو کے دوران پیش آئے۔ لوگوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا اور ان گواہوں کی ایک بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے جہاں لوگوں کو ان ضروریات سے محروم کرکے عنوان یہ دیا گیا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشن ہو رہا ہے۔
پنجاب حکومت کے پاس اتنے وسائل تھے اور اتنی دانش و بینش اسے میسر تھی کہ اگر وہ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں مرکزی حکومت سے کامل بے اعتنائی برتتے ہوئے اسے کم کرنے یا کنٹرول کرنے کے اقدمات کرتی اور اس کی گنجایش موجود تھی تویقینی طور پر یہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا لیکن اس نے بھی سواے مرکز کو چارج شیٹ کرنے کے کچھ نہ کیا اوراپنے فرائض کی ادائیگی سے پہلوتہی کرتے ہوئے عوام کے دکھوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ اسی لیے پنجاب بالخصوص لاہور لوڈشیڈنگ کے سب سے بڑے مراکز کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مصنوعی اور نمایشی اقدامات، دکھاوے کے عنوانات تو بہت سجائے گئے لیکن حقیقی طور پر مہنگائی کو ختم کرنے اوربے روزگاری کوکم کرنے کے جو منصوبے اور اقدامات ہو سکتے تھے، وہ سامنے نہیں آسکے۔ اور یہی معاملہ کم و بیش لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا نظر آیا۔
اس پورے پس منظر میں جو پہلے پرویز مشرف اور اس کی حکمرانی کے دور میں اور پھر آصف زرداری اور اتحادی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اس انتہا کو پہنچا ہے،ملک میں انتخابات کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ حکمران جماعت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہو رہی ہے اور انتخابات امید کی کرن کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ یہ خدشات موجود ہیں کہ حکمران انتخابات کے عمل کو ایک سال آگے دھکیلنا چاہتے ہیںاورعین ممکن ہے کہ یہ منظرنامہ بیرونی طاقتوں کے ایما پر ہی ترتیب دیا جا رہا ہوکہ آصف زرداری اور ان کے حکمران ٹولے سے بہتر امریکا کا خدمت گزار کوئی نہیں ہو سکتا۔قومی انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا شوشہ اسی لیے چھوڑا گیا۔ہمارے خیال میں اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ حقیقی اپوزیشن گرینڈ الائنس کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور اس یک نکاتی ایجنڈے پر آگے بڑھے کہ حکومت قومی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، ایک قابل قبول مکمل طور پر غیر جانب دار عبوری حکومت سامنے لائی جائے اور شفاف انتخابی فہرستوں کے ذریعے انتخاب کا اہتمام کیا جائے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بظاہر اس تجویز سے متفق تو نظر آتی ہیں لیکن پیش رفت اور پیش قدمی کے لیے آمادگی کم کم دکھائی دیتی ہے۔
رابطہ عوام مہم کے دوران ہم یہ بات تسلسل سے کہہ کہ ملک وملت کی قسمت بدلنی ہے تو ووٹ دینے کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کرپٹ حکومت کے ذریعے کرپٹ معاشرہ ہی قائم ہوتا ہے اور کرپٹ حکمران عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہ کوئی کام کرسکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ¿ تعبیر ہو سکتا ہے۔ اگر لوگ ووٹ دینے کے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے ان جماعتوں کو مسترد کریں جو ان کے لیے مشکلات اور مصائب کا سبب بنی ہیں تو ان کی قسمت بدل سکتی ہے۔
لوگ اس بحث میں بھی جا بجا کنفیوژن سے دوچار نظر آتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے کسی تبدیلی یاانقلاب کی گھن گرج نہیں سنی جا سکتی۔ یہ بات تسلیم ہے کہ انتخاب مکمل انقلاب کا راستہ نہیں ہے لیکن جزوی انقلاب اور جزوی تبدیلیاں بہتری کی طرف مائل کرنے اور منزل کو قریب کرنے کا ایک ذریعہ ضرور ہیں۔ اگر انقلابی ووٹرز کی تعداد بڑھتی چلی جائے اوروہ انقلاب کی پشتی بانی کریں تو یقینی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انتخاب کا راستہ بھی انقلاب کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر عوام اور ووٹرز حکمرانوں کی، ظالموں اور جاگیرداروں کی، سیکولر لابی اور امریکی ایجنٹوں کو ووٹ نہ دیںاور انھیں بڑے پیمانے پر غیر مقبول بنا دیں تو اس کے نتیجے میں بھی اس تبدیلی کے دروازے کھل جائیں گے جو مطلوب ہے اور جس کے نتیجے میں ان شاءاللہ ’سٹیٹس کو‘ کے بت گرجائیں گے۔ اس لیے جماعت اسلامی نہ صرف اپنے بہی خواہوں اور خیرخواہوںسے، اپنے سے ہمدردی رکھنے والوں اور حمایت کرنے والوں سے یہ اپیل کرتی ہے بلکہ ملک کے اہل دانش و بینش سے، سوچ اور فکر رکھنے والوں سے، ظالمانہ معاشی نظام کے دو پاٹوں میں پسنے والے انسانوں سے، دکھی لوگوں سے، غریبوں سے، محروموں، بے کس و مجبوروں سے بھی یہ اپیل کرتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے جلو میں آجائیں۔ عدل و انصاف کا نظام قرآن و سنت کی فرماں روائی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا کش مکش مول لے کر اسلامی نظام کی طرف بڑی تعداد میں لوگوں کو راغب کریںاور اسلام کے بابرکت نظام کو قائم کرنے کی نیت اور ارادے کے ساتھ انتخاب کے ذریعے تبدیلی کو یقینی بنائیں۔