نیپرا کی ہدایت کے برعکس رینٹل پاور پلانٹس 25 برس پرانے تھے‘ نیب دولت لوٹنے والوں کی وکالت کر رہا ہے: سپریم کورٹ

Oct 02, 2012

اسلام آباد (نمائندہ نوائے و قت) عدالت عظمیٰ نے رینٹل پاور سے متعلق عدالتی فیصلے پر علمدرآمد مقدمے کی سماعت میں نیب کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے نئی رپورٹ پیش کرنے کے لئے سولہ اکتوبر تک مہلت دے دی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دئیے ہیں کہ نیب نے غفلت برتنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، اس معاملے پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ مقدمے کا مقصد معاشرے کو پیغام دینا ہوتا ہے کہ کرپشن کرنے پر سزا ملے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بنچ نے رینٹل پاور پراجیکٹ عملدرآمد کیس میں عملدرآمد نہ کرنے کے مرتکب نیب کے اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت شوکاز نوٹس کے حوالے سے ابتدائی کارروائی کی تو نیب کے ڈی جی تفتیش کرنل ریٹائرڈ شہزاد احمد بھٹی سمیت 7 اہلکار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور انہوں نے نوٹسز واپس لینے کی استدعا کی، جو عدالت نے مسترد کر دی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے بعد عملدرآمد نہ کرنے کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے تھی، آپ کے نام ہمیں چیئرمین نیب نے بھجوائے ہیں عدالت کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے۔ کرنل ریٹائرڈ محمد شہزاد بھٹی نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتے البتہ عدالت کے فیصلہ کو سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے کیونکہ وہ قانون سے اتنے زیادہ واقف نہیں ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اتنی معصومیت نہ دکھائیں، آئندہ پیشی تک مناسب پیش رفت نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر رینٹل پاور عمل درآمد کیس میں مناسب پیشرفت نہ ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ عدالت نے عملدرآمد کے لئے دو ماہ کا وقت دینے کی استدعا مسترد کر دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیب قومی دولت لوٹنے والوں کی وکالت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ چیئرمین نیب بتائیں کہ وہ اس مقدمے میں رپورٹ پیش کریں گے یا وکلا دفاع کریں گے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے بتایا کہ نیب نے ملوث افراد کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ 5 ارب میں سے 2 ارب وصول کئے جا چکے ہیں بقیہ 3 ارب کی وصولی کا عمل پائپ لائن میں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ نیب کی رپورٹس میں واضح نہیں کہ کس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے۔ رینٹل پاور کے فیصلے میں ہر ذمہ دار کے خلاف فوجداری مقدمہ بنتا ہے۔ کے کے آغا نے کہا کہ بادی النظر میں رینٹل پاور منصوبوں میں خورد برد کے 3 ذمہ داروں میں حکومتی عہدےداران شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کسی کے خلاف اب تک فوجداری کارروائی کی ہے؟ نیپرا کے مطابق پاور پلانٹس 10 سال سے زیادہ پرانے نہیں ہونے چاہئے تھے جبکہ تمام رینٹل پلانٹس 25 سال پرانے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب نے اس لحاظ سے فیلہ کرنے میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ نیب کی کارروائی سے مطمئن ہو گئے تو نوٹس واپس لے لیں گے۔ توہین عدالت کی کارروائی بڑھانی پڑی تو کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ نیب صرف اپنے آرڈیننس کے تحت ہی کارروائی کر سکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا نیب آڈیننس کے تحت آپ ہر قسم کا ایکشن لے سکتے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے تحت نیب کا فوجداری ایکشن بنتا تھا مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ نیب آرڈیننس کا سہارا لے کر آپ فیصلے سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ کے کے آغا کا کہنا تھا کہ نیب صرف ایک پوسٹ آفس نہیں اسے قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ نیب فیصلے پر عملدرآمد کر رہا ہے رقم واپس ہو جائے تو کیا کارروائی ہو سکتی ہے۔

مزیدخبریں