سپیشل بچے سپیشل گیسٹ

نوائے وقت کی ایک خبر کے مطابق عبدالعلیم خان نے ایک فلاحی ادارے کا سنگ بنیاد رکھا جو سپیشل بچوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ رائزنگ سن کے نام سے یہ انسٹی ٹیوٹ ایک ”خصوصی علاقے“ مغلپورہ میں بنایا جا رہا ہے۔ سپیشل کا اردو ترجمہ خصوصی ہے جس میں سپیشل کے پورے معانی منتقل نہیں ہوئے۔ اب سپیشل کا لفظ بھی عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح سکول کالج اور سٹیشن کا لفظ عام ہے معذور بچوں کی عزت افزائی کے لئے سپیشل کا لفظ بھی سپیشل ہے۔ محفلوں میں بہت معزز اور محبوب آدمی چیف گیسٹ ہوتا ہے۔ اسے سپیشل گیسٹ بھی کہتے ہیں۔ وہ مہمان خصوصی ہوتا ہے جو دوسرے مہمانوں سے زیادہ مہمان ہوتا ہے۔ سب خواتین و حضرات جو تشریف لاتے ہیں۔ وہ مہمان ہوتے ہیں۔ بچے سارے اچھے ہوتے ہیں مگر معذور بچوں کو خصوصی بچے کہا جاتا ہے۔ خصوصی کے لفظ میں وہ کیفیت اور معنویت نہیں ہے جو سپیشل میں ہے۔ اب سپیشل بھی اردو کا لفظ ہے۔ اردو لشکری زبان ہے اس میں دوسری کئی زبانوں کے لفظ بڑی آسانی سے در آتے ہیں۔ اب تو اردو بولنے والی کئی عورتیں اور مرد اردو بولتے ہوئے اس میں آدھی انگریزی شامل کر دیتے ہیں۔ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس زبان میں گفتگو کر رہے ہیں۔
قائداعظم کو اردو نہیں آتی تھی۔ وہ بہت آسان انگریزی بولتے تھے مگر جب انہوں نے اردو میں تقریر کی توایک لفظ انگریزی کا استعمال نہیں کیا۔ میری گزارش پاکستانی خواتین و حضرات سے ہے کہ وہ اردو بولیں تو صرف اردو بولیں انگریزی بولنے والی خواتین و حضرات کبھی اردو کا لفظ غلطی سے بھی گفتگو میں نہیں لاتے اس طرح اردو کا حلیہ نہ بگاڑا جائے۔ قومی زبان کی توہین نہ کی جائے قومی زبان ابھی تک سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ اس کا مطلب ہے کہ قومی زبان کچھ اور ہے سرکاری زبان کچھ اور ہے اس قوم کو تضادات اور الجھنوں میں افسر شاہی نے پھنسا دیا ہے۔ ہم نہ انگریزی میں چل سکتے ہیں اور نہ ہمیں اردو پوری طرح آتی ہے اردو کے لئے سپیشل کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے ہم معذور بچوں کے لئے سپیشل کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ تاہم معذوروں سے بڑھ کر معذور ہیں کہ ہم مجبور لوگ ہیں اور مجبور سے بڑا معذور کوئی نہیں ہوتا۔ ہم بات بات میں کہتے ہیں کہ ہم یہ کام کرنے سے معذور ہیں۔ رائزنگ سن انسٹیٹیوٹ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے عبداعلیم خان نے کہا کہ تھوڑی سی خصوصی توجہ سے خصوصی بچے معاشرے کا فعال حصہ بن سکتے ہیں۔ ہمہ گیر زوال کا یہ حال ہے کہ عام بچے بھی معاشرے کا فعال حصہ نہیں بن سکتے۔ بچوں کے لئے ہماری عدم دلچسپی اور بے توجہی نے ہمارا مستقبل تاریک کیا ہوا ہے۔ شفیق الرحمان کا یہ جملہ یاد آتا ہے۔ ”بچے اچھے ہوتے ہیں مگر ان میں ایک خرابی ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔“ بڑے ہو کر وہ ایسے ہی بن جاتے ہیں جیسے میں اور آپ ہیں۔ جو معاشرے کے لئے کسی طور بھی کام نہیں آسکتے ہمارا معاشرہ مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ‘ دہشت گردی‘ قتل و غارت گری‘ انتشار‘ بے یقینی‘ بے حسی اور بے بسی کا مرکز بن گیا ہے۔ جس ملک کے حکمران اور افسران اپنے آپ کو سپیشل لوگ سمجھتے ہوں۔ اسے معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں سپیشل سے مراد وہی ہے جو ہم سپیشل بچوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ہم نے سپیشل بچوں کے لئے کیا کیا ہے ہماری ہر حکومت عام انسانوں کے لئے کچھ نہیں کر سکی تو وہ سپیشل لوگوں کے لئے سپیشل بچوں کے لئے کیا کرے گی۔ کہیں بھی کوئی خصوصی انتظام خصوصی لوگوں اور بچوں کے لئے نہیں ہے کئی سپیشل بچے ہم نارمل لوگوں سے زیادہ فعال ہیں۔ وہ آگے نکل گئے ہیں ہم سے تو بہت آگے نکل گئے ہیں۔
ایک مثال ہمارے جگری دوست ڈاکٹر طارق عزیز کی ہے۔ وہ معذور ہے ابھی تک سپیشل بچہ ہے۔ وہ چل نہیں سکتا ہر کہیں وہیل چیئر پر ہوتا ہے مگر گاڑی خود چلاتا ہے اس نے کمپیوٹر کے حوالے سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہے وہ میرا کولیگ رہا ہے۔ مجھ سے بہتر بہت بہتر ٹیچر ہے۔ ہمارے لئے وہ حوصلوں کی چٹان ہے۔ خوش باش خوش طبع‘ میں نے اسے کبھی مایوس ہوتے نہیں دیکھا۔
علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر طارق بھٹی اس کے بہت مداح ہیں۔ وہ بچوں کے ڈاکٹر ہیں۔ سپیشل بچوں کے بھی ہوں گے ڈاکٹری کے علاوہ بڑے ذوق و شوق کے آدمی ہیں۔ ان سے تھوڑی دیر کی گفتگو نے مجھے حیران کر دیا۔ وہ سپیشل بچوں کے لئے بہت درد رکھتے ہیں۔ میرے ایک سٹوڈنٹ تیمور عالم بھی ڈاکٹر ہیں۔ وہ نابینا ہیں۔ بہت قابل نوجوان ہیں۔ اس نے بھی پی ایچ ڈی کی ہے۔ کیسے کر لی ہے۔ میری حیرت دم بخود ہے۔ وہ پڑھاتا ہے۔ لڑکے اس کی کلاس میں خوش ہوتے ہیں۔ میرا شاعر بھتیجا حماد نیازی کہتا ہے کہ وہ مشاعروں کا ڈاکو سمجھا جاتا ہے۔ جس مشاعرے میں وہ ہو تو اس سے بڑھ کر داد کسی شاعر کو نہیں ملتی۔ وہ اندھا ہے مگر اندھا دھند دیکھنے پر قادر ہے جو ہم آنکھوں والے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ دل کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔ وہ گورنمنٹ سائنس کالج میں بڑی مشکل سے آتا ہے۔ اب کالج کیمپس میں ایک چھوٹا سا مکان خالی ہوا ہے۔ وہ یہاں آجائے تو اس کے لئے آسانی ہو گی۔ وزیر تعلیم رانا مشہود اچھے دل والے آدمی ہیں۔ بڑی دیر سے ان کو اس کیس کا پتہ ہے مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ وہ خصوصی توجہ کریں یہ گزارش خصوصی بچے کی طرف سے ہے۔ وزیر تعلیم غور کریں کہ تیمور عالم سے زیادہ مستحق کون ہو گا؟ میری گزارش پروفیسر مجیب الاسلام سے بھی ہے کہ وہ تیمور عالم کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے گا۔
عبدالعیم خان نے خصوصی بچوں کے لئے ایک انسٹی ٹیوٹ کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ وہ بہت دل والے انسان ہیں۔ سپیشل بچوں کے لئے مہربانی تو بہت بڑی مہربانی ہے۔ وہاں سابق گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول بھی تھے۔ وہ آجکل فلاحی کاموں میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ موجودہ گورنر پنجاب چودھری سرور سپیشل بچوں کو گورنر ہا¶س بلاتے ہیں۔ اپنے ساتھ بٹھا کے انہیں پیار کرتے ہیں۔
آخر میں ایک بہت گہری بات ۔۔ ایک دفعہ بہت پہلے سپیشل بچوں کے لئے خاتون وزیر قدسیہ لودھی سے بہت بڑے انسان ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ ہمیں بھی سپیشل بچہ ہی سمجھیں۔ یہ جملہ سپیشل بچوں کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...