فیصل آباد (تجزیہ: احمد جمال نظامی) حکومت کی طرف سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عوامی، صنعتی، تجارتی، برآمدی اور زرعی حلقوں پر کروز میزائل بن کر گرا ہے مگر حکومت کی طرف سے حالیہ اضافہ زیادہ تعجب انگیز نہیں، سب کو پہلے ہی علم تھا کہ حکومت ایسے تلخ فیصلے کرنے جا رہی ہے اور آئندہ بھی اس قسم کے اضافوں پر مبنی فیصلوں کے ہونے کی واضح توقعات موجود ہیں۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گذشتہ چند برسوں سے بار بار اور اس قدر اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ اب عوام کے لئے بھی یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہا کہ ان اضافوں سے ملکی معیشت سے لے کر ان کی گھریلو معاشی حیثیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان دنوں جبکہ ڈالر روپے کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں 108روپے ریکارڈ تاریخی بلندترین سطح پر فروخت ہو رہا ہے تو بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہماری ملکی معیشت کا مزید جنازہ نکال دے گا۔ ہمارے ملک کی معیشت پرویزمشرف کے دور سے ڈانواں ڈول چلی آ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے پورے پانچ سال تک کوئی معاشی و اقتصادی ایجنڈا ڈکلیئر نہ کیا اور معیشت کا ہر روز جنازہ اٹھتا رہا۔ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں بھی بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر اضافے کئے جاتے رہے۔ موجودہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے اشاروں پر توانائی ذرائع کی قیمتوں میں اضافے کرتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت نے اپنے چند دنوں میں جو سو دنوں سے کچھ اوپر ہیں، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کو نالاں کر دیا ہے۔ اس وقت جبکہ وزیراعظم نوازشریف نیویارک سے واپس لوٹے بھی نہیں تھے، وزیرخزانہ بھی اقوام متحدہ میں ان کے ہم جولی تھے۔ گورنر سٹیٹ بینک چین کے دورے پر تھے۔ ڈالر کی قیمت میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر اضافہ ہونا بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا خوفناک اضافہ کرنے کی ٹائمنگ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہ صنعتی، تجارتی، زرعی اور برآمدی حلقے جو 1997ءمیں میاں محمد نوازشریف کی حکومت کی اس پالیسی کے مداح تھے کہ انہوں نے آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے ملک کو آزاد کروایا وہ کشکول تھامے حکومت کی کارکردگی اور بار بار توانائی ذرائع کی قیمتوں میں اضافوں پر حکومت کے خلاف صف آراءہو کر کمربستہ ہو چکے ہیں اس کا ثبوت گذشتہ روز لاہور میں ہونے والے تاجر کنونشن کے لب لباب سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ تمام صنعتی، تجارتی اور معاشی و اقتصادی حلقے حکومت کے اقدامات کو گہری تشویش سے دیکھتے ہوئے اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت جس نے اپنے انتخابی ایجنڈے میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بیش بہا نعرے بلند کئے اور وعدے کئے جاتے رہے وہ اس وقت تمام حلقوں کے لئے مایوسی کا ذریعہ بن چکی ہے بالخصوص 2005ءمیں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے بعد ڈبلیو ٹی او کے عالمگیر معاہدے کے اطلاق کے بعد سے اس وقت حکومت کی طرف سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافوں نے پیداواری حلقوں کو شدید پریشان کر دیا ہے کہ وہ خام مال اور مہنگی توانائی کی صورت میں کس طرح عالمی منڈیوں میں مسابقتی ممالک بنگلہ دیش اور انڈیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ خطے میں پاکستان کی پیداواری اعتبار سے صلاحیت لمحہ بہ لمحہ دگرگوں ہو رہی ہے۔ شعبہ زراعت بھی مزید تنزلی کا شکار ہے۔ تجارت ابتری کی طرف مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے اور آئندہ ہماری برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ حکومت نے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی کر کے آئی ایم ایف کے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مزید سنگ میل کا کردار ادا کیا ہے جس پر سب احتجاج کناں ہو کر حکومت سے اصلاح احوال کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حکومتی اقدامات مستقبل کے قدموں کے نقش واضح کر رہے ہیں اور وہ نقش یوں نظر آ رہے ہیں کہ آئندہ بھی معیشت اور اقتصادی معاملات کے ساتھ گھنا¶نا کھیل کھیلا جاتا رہے گا، وہ کھیل جس کا میدان آئی ایم ایف سجاتا ہے اور ہمارے حکمران محض کھلاڑی ہیں جبکہ عوام وہ بے بس تماشائی ہیں جو سب کچھ سمجھ کر بھی کچھ کرنے سے قاصر کر دیئے گئے ہیں۔ ظاہری اور فطری عمل ہے کہ قیادت کے فقدان اور اس قدر خوفناک مہنگائی عوام کے غم و غصے کو منفی اور بے راہ سمت پر گامزن کرے گا پھر خودکشیوں اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش اور احتجاج کیوں؟۔ محض نمائشی اور فیشن کے ہتھکنڈے کافی نہیں ہو سکتے۔