پنجاب کا ایک درویش وزیراعلیٰ

29 ستمبر پنجاب کے ایک درویش وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کا یوم شہادت ہے۔ 1993ء کی انتخابی مہم کے دوران غلام حیدر وائیں کو انکے سیاسی مخالفین نے عام انتخابات میں اپنی یقینی شکست کے خوف کے باعث قتل کروا دیا تھا۔ غلام حیدر وائیں کو ایک سیاسی لیڈر کے بجائے ہمیشہ اپنے سیاسی کارکن ہونے پر فخر رہا۔ ان کا تعلق متوسط طبقے سے نہیں بلکہ نچلے متوسط طبقے سے تھا اور وہ پنجاب جس کی وزارت اعلیٰ کی مسند کو صرف جاگیردار طبقہ ہی اپنی وراثت سمجھتا تھا۔ غلام حیدر وائیں جیسے غریب سیاسی کارکن کا اقتدار کی ایسی بلندی پر پہنچا‘ جاگیردار طبقے کیلئے ناقابل برداشت تھا اس لئے غلام حیدر وائیں کو سیاست کے منظر سے غائب کرنے کیلئے کئی طرح کی سازشوں کے جال پھیلائے گئے۔ جب غلام حیدر وائیں کے سیاسی حریفوں کیلئے سیاست کے میدان میں وائیں صاحب کا مقابلہ ممکن نہ رہا اور ہر انتخابات میں جیت غلام حیدر وائیں کا مقدر بنتی رہی تو پھر غلام حیدر وائیں کو ایک انتہائی وحشیانہ واردات میں قتل کر دیا گیا‘ لیکن وائیں شہید کے قاتل یہ بات بھول گئے کہ زنذہ غلام حیدر وائیں کے مقابلے میں موجودہ غلام حیدر وائیں اپنے سیاسی مخالفین کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔
 آج غلام حیدر وائیں کی شہادت کے 21 سال بعد بھی پنجاب بھر میں غلام حیدر وائیں کو تو عوام بے پناہ محبت سے یاد کرتے ہیں‘ لیکن ان کے سیاسی مخالفین اپنے ضلع کی حد تک بھی سیاست میں ناکام ہوکر رہ گئے ہیں۔ وائیں شہید کا نام سیاست میں اب تک زندہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ غلام حیدر وائیں نے سیاست کو عبادت اور صرف خدمت خلق کا ایک مقدس ذریعہ سمجھا۔ خلق خدا کی بے لوث خدمت کو جو لوگ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کا ایک راستہ سمجھ کر سیاست میں اپنے فرائض پوری ایمانداری ادا کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ انکی یاد کو عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ ایک ایسا شخص کہ جو کئی بار اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا‘ صوبائی وزیر رہا اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہا ہو۔ اس کے پاس رہنے کیلئے اپنا ایک 5 مرلے کا چھوٹا سا مکان بھی نہیں تھا اور یہی ایک بے گھر اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا سیاسی کارکن اپنے علاقہ کے بڑے بے بڑے جاگیردار اور وڈیرے کو سیاست کے میدان میں ہمیشہ شکست دیتا تھا۔ اسکی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ خلقِِ خدا کا ایک بے لوث خدمت گار تھا اور خلق خداِ دل و جان سے غلام حیدر وائیں کی عاشق تھی۔ وائیں شہید شاید واحد سیاستدان ایسے ہونگے جن کے اپنی جیب سے قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑتے ہوئے چند ہزار روپے بھی خرچ نہیں ہوتے ہونگے۔ عوام وائیں صاحب کو ووٹ بھی دیتے تھے اور انکے تمام تر انتخابی اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے کیونکہ عوام جانتے تھے کہ سیاست غلام حیدر وائیں کیلئے ذریعہ تجارت ہرگز نہیں ہے۔ غلام حیدر وائیں کا کوئی عزیز‘ رشتہ دار‘ بھائی‘ بھتیجا یا بھانجہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ان سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ان کا ایک بھائی اور بہنیں اتفاق سے لاہور ہی میں رہتی تھیں‘ لیکن ان سے ملنے کیلئے کوئی چیف منسٹر ہائوس نہیں آتا تھا۔ غلام حیدر وائیں کو اپنے خاندان سے زیادہ اپنے عوام سے زیادہ محبت تھی‘ لیکن وائیں صاحب کے قریبی رشتہ دار اس بات کا بُرا بھی نہیں مانتے تھے بلکہ وہ فخر کرتے تھے کہ غلام حیدر وائیں ایک درویش منش انسان‘ ایک بااصول سیاستدان اور صرف اور صرف میرٹ کو ترجیح دینے والا حکمران ہے۔ غلام حیدر وائیں کی شادی اپنے تایا کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ وائیں صاحب اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے تایا جان کی ایک نصیحت کا حوالہ ضرور دیتے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ جب میں نے سیاست کا آغاز کیا تو میرے تایا جان نے مجھے ہدایت کی کہ سیاست میں کسی کا ساتھ دو یا مخالفت کرو‘ لیکن منافقت کا راستہ کبھی اختیار نہ کرو اور اگر منافقت سے پاک سیاست تمہارے بس میں نہ ہو تو پھر سیاست چھوڑ دو۔ وائیں شہید نے تمام عمر سیاست میں اپنے تایا کی اس نصیحت پر عمل کیا اور اسی وجہ سے سیاست میں عزت پائی۔
غلام حیدر وائیں ایک واقعہ اپنے احباب کو اکثر سنایا کرتے تھے کہ جب 1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے بلا جواز اسمبلیوں کو توڑ دیا تو اس وقت مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ میرے دل کو جنرل ضیاء کا یہ اقدام انتہائی ناگوار محسوس ہوا۔ مسلم لیگ کی آئینی حکومت توڑ کر پنجاب کی نگران وزارت اعلیٰ نوازشریف کو پیش کر دی گئی۔ نوازشریف اپنی کابینہ میں غلام حیدر وائیں کو وزیر لینا چاہتے تھے‘ لیکن غلام حیدر وائیں نے صرف اس لئے وزارت لینے سے انکار کر دیا کہ جب انکے دل میں جنرل ضیاء کے غیر جمہوری اقدام کیخلاف نفرت موجود ہے تو پھر وہ منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت قبول نہیں کر سکتے۔ وزارت سے جان چھڑانے کیلئے غلام حیدر وائیں باقاعدہ طورپر جناب مجید نظامی کی خدمت میں بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے مجید نظامی سے یہ درخواست کی کہ وہ نوازشریف کو کہہ دیں کہ وائیں کو وزارت لینے پر مجبور نہ کریں۔ غلام حیدر وائیں کی سیاست میں درویشی اور بے نیازی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ لوگ تو وزارت کے حصول کیلئے بھیک مانگنے سے گریز نہیں کرتے‘ لیکن وائیں شہید یہ سفارش کروانے کیلئے مجید نظامی کے ہاں پہنچ گئے کہ مجھے وزارت سے ’’بچایا‘‘ جائے۔ مجید نظامی صاحب غلام حیدر وائیں کی دو خوبیوں کے باعث ان سے اپنے دل میں بڑی محبت رکھتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ غلام حیدر وائیں نے وزارت اعلیٰ پر فائز ہونے کے بعد بھی اپنی درویشانہ روش کو ترک نہیں کیا اور ان میں شرافت و انسانیت کا جوہر وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی ویسے ہی زندہ رہا جیسے وزارت اعلیٰ سے پہلے تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ غلام حیدر وائیں ایک سچے نظریاتی پاکستانی تھے۔ نظریۂ پاکستان سے گہری محبت رکھنے کی وجہ سے مجید نظامی کی تحریک پر غلام حیدروائیں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ جیسے اداروں کی بنیاد رکھی اور ایوان کارکنان تحریک پاکستان بھی بنایا۔ میں چونکہ مجید نظامی کی زندگی میں سینکڑوں مرتبہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے دفتر میں حاضر ہوتا رہا ہوں۔ شاید ہی کوئی تقریب ایسی ہوگی جس میں مجید نظامی نے غلام حیدر وائیں شہید کا ذکر نہ کیا ہو۔ میں اپنے اس کالم کو مجید نظامی کے ہی ان الفاظ پر ختم کرتا ہوں ’’میں نے تو ایسا شخص نہ دیکھا اور نہ مجھے ملا‘‘ حق مغفرت کرے عجب آزد مرد تھا۔

ای پیپر دی نیشن