مشرقِ وسطیٰ میں برپا خانہ جنگی نے ایک نیا رُوپ دھار لیا ہے۔ فرقہ پرستی کی سیاست نے ایک نئی اور انتہائی خطرناک کروٹ لے لی ہے۔ ایران، عراق، بحرین اور شام میں شیعہ سُنّی منافرت کی آگ بھڑکانے میں مصروف قوتوں نے اب سُنّی اور سُنّی کے درمیان جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ عراق اور شام میں اسلامی خلافت کے قیام میں کوشاں دہشت گرد گروہوں کی سرکوبی کی خاطر امریکہ نے فضائی حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ہر چند اِن سُنّی دہشت گردوں پر حملوں نے خطے کی شیعہ آبادی کو ذرا سا، وقتی تحفظ فراہم کیا ہے تاہم یہ تازہ کارروائیاں پورے خطے کے لیے نئے خطرات کا الارم ہے۔ اب تک بحرین، اُردن، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اتحادِ فکر و عمل درپردہ چلا آ رہا تھا مگر اب یہ اتحاد برملا ہو گیا ہے اور پہلی مرتبہ اِن عرب ممالک نے کُھل کر اعلان کیا ہے کہ وہ اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی ہیں۔ اس تازہ کارروائی میں جن سعودی پائیلٹس نے عملاً حصہ لیا ہے اُنھیں شہزادہ سلمان نے داد دیتے وقت کہا ہے کہ ”میرے اِن بیٹوں، اِن پائیلٹوں نے اپنے مذہب، اپنے وطن اور اپنے بادشاہ کی شاندار خدمات سرانجام دی ہیں۔“ اِن حملوں میں پہلی بار ایک سعودی خاتون پائلٹ نے بھی حصہ لیا ہے۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ درحقیقت اِن ہوابازوں نے بادشاہت کے نظام کو بچانے کے فرائض سرانجام دیے ہیں۔اِس وقت عرب دُنیا میں خاندانی بادشاہت کے محافظوں اور اسلامی خلافت کے علمبرداروں کے مابین ایک ایسی جنگ جاری ہے جس میں فریقین دہشت گردی اور تشدد اور قتل و غارت کے دورِ جاہلیت کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ عالمی قوتیں بھی اپنے سامراجی استحصال کو جاری رکھنے کی خاطر اپنے اِن لے پالک حکمرانوں کی بقا کی خاطر دہشت گردی کا چلن اپنانے پر مجبور ہیں۔ اِس دہشت گردی کا بنیادی سبب نظریاتی ہے۔ دہشت گردی کی مروّجہ بھیانک شکلیں دراصل خاندانی بادشاہت اور آمرانہ طرزِ حکومت اور اسلامی خلافت کے مبہم تصورات کے درمیان جاری تصادم سے پھوٹی ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:اسی دریا سے اُٹھتی ہے وہ موجِ تُند جولاں بھینہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالامشرقِ وسطیٰ میں نہنگوں کے نشیمنوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دینے والی موجِ تُند جولاں کا خیال کرتا ہوں تو مجھے اُسامہ بن لادن مرحوم و مغفور کا سفرِ حیات یاد آتا ہے۔ اُسامہ بن لادن 1957ءمیں سعودی عرب کے شہر ریاض میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد محمد لادن ایک انجینئر تھے جن کا خاندان یمن سے آ کر سعودی عرب میں آباد ہو گیا تھا۔ اُنھوں نے شاہی خاندان کے تعاون اور سرپرستی میں اپنے کاروبار کو چمکایا تھا۔ اُنھوں نے 1976ءسے 1978ءتک جدّہ کے ایک پرائیویٹ سکول میں ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدّہ میں اقتصادیات اور بزنس مینجمنٹ کی تعلیم مکمل کی تھی۔ ہر چند سکول ہی کے دنوں میں اُنھوں نے دینِ اسلام کی تفہیم میں خاص دلچسپی لی تھی تاہم یونیورسٹی میں وہ اخوان المسلمین کے فلسطینی رہنما عبداللہ عزام کے زیرِاثر آ گئے تھے۔یہ عبداللہ عزام ہی تھے جنھوں نے رُوسی تسلط کے خلاف افغان جہاد کے نظریہ و عمل کو مقبول بنایا تھا۔ اُسامہ نے انھی کی فکری اور نظریاتی رہنمائی میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد 1980ءمیں بیت الانصار کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ اِسی تنظیم نے سعودی عرب، مصر، ترکی، یمن، الجزائر اور لبنان سے افغان جہاد کی خاطر رضا کار تیار کیے تھے۔ 1982ءمیں سعودی شہزادہ ترکی بن فیصل نے امریکہ کی تمنّاﺅں کی تکمیل میں اُسامہ بن لادن سے ملاقات کی تھی۔ یوں امریکہ، سعودی عرب اور خلیج کی دیگر خاندانی بادشاہتوں اور اُسامہ بن لادن کے مابین سوویت رُوس کو افغانستا ن سے مار بھگانے کی خاطر مشترکہ حکمتِ عملی وضع کی گئی تھی۔ اُسامہ بن لادن کی قیادت میں یہ حکمتِ عملی رُوس کی پسپائی کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ اُسامہ بن لادن کو مصر کی جمعِ اسلامیہ، اسلامی جہاد کی سی اسلامی تحریکوں سے بیش از بیش رضاکار نصیب ہوئے تھے۔ اِن میں اخوان رہنما ایمن الظواہری سرِفہرست تھے اور اُسامہ کے بعد آج تک یہی سب سے بڑے کارکن و کارکشا چلے آ رہے ہیں۔افغانستان سے رُوس کی پسپائی کے بعد ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائی گئی جو امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کی عرب بادشاہتوں کے مخصوص مفادات سے متصادم تھی اور اب تک ہے۔ یہ حکمتِ عملی دُنیائے اسلام کو ”صلیبی اور صہیونی“ تسلط سے آزاد کرانے کے جہاد سے عبارت ہے۔ اِس کے خدوخال اُسامہ بن لادن کے اُس مشہور فتویٰ میں نمایاں ہیںجو انھوں نے 23 فروری 1998ءکو جاری کیا تھا اور جس پر اُسامہ اور ایمن الظواہری کے ساتھ مختلف ممالک کے چار اور علماءکے دستخط ثبت ہیں۔ اِن علمائے کرام میں مولانا فصل الرحمن خلیل، امیر تحریکِ انصار پاکستان اور مولانا امیر حمزہ، سیکرٹری انجمن علمائے اسلام شامل ہیں۔ اِس اعلامیہ میں اِس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ حرمین شریفین کی مقدس سرزمین سے امریکی فوجوں کو نکال باہر کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر خطے کو صلیبی اور صہیونی اثرات سے پاک کر کے سیاسی اور تمدنی خود مختاری کی امید لاحاصل ہے۔ اِس فتویٰ سے تین سال پہلے اُسامہ بن لادن نے شاہ فہد کی خدمت میں ایک مراسلہ بھیجا تھا جس میں اِس خیال کا اظہار کیا گیا تھا کہ سعودی حکومت محمد ابنِ عبدالوہاب کی تعلیمات سے رُوگردانی کی مرتکب ہے، سعودی عرب کے دفاع میں ناکام ہے اور تیل کی دولت کو فضول کاموں میں ضائع کر رہی ہے۔ اِس خط میں شاہ فہد سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ حکومت سے سبکدوش ہو جائیں اور علمائے کرام سے التجا کی گئی تھی کہ وہ فتویٰ فروشی سے باز آ جائیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اِس طرح کی اپیلوں اور اعلامیوں سے مطلق العنان بادشاہتیں کم کم بصیرت اندوز ہوتی ہیں۔ بلکہ اِس طرح کے تصورات کو طاقت کے ذریعے کچل ڈالنے کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگتی ہیں۔ اِس کے ردعمل میں مخالف فریق بھی تشدد پسندی اور دہشت گردی کا روّیہ اپنا لیتا ہے۔ اس وقت دُنیائے اسلام اِسی ردِعمل کی لپیٹ میں ہے۔ اِس ردعمل کو مثبت عمل بنایا جا سکتا ہے۔ حُسنِ اتفاق سے یہ مشورہ اب سات سمندر پار سے بھی آ گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رواں اجلاس میں امریکی صدر Obama نے عرب حکمرانوں کو مخاطب کرتے وقت کیا خوب کہا ہے :"If young people live in places where the only option is between the dictates of a state, or the lure of an extremist under-ground, then no counterterrorism strategy can succeed. But where a genuine civil society is allowed to flourish-where people can express their views, and organize peacefully for a better life__then you dramatically expand and alternatives to terror."عرب حکمرانوں کو دہشت گردی اور تخریب کاری بمقابلہ آمریت و استبداد کی مروّجہ روّش ترک کر کے انسانی حقوق کے صد فیصد احترام کی یہ فضا قائم کرنے کا مشورہ امریکی صدر کی جانب سے آیا ہے، اِس لیے یہ توقع بے جا نہیں کہ ہر دو فریق ہوش کے ناخن لیں گے اور یوں پھر سے عرب بہار کے جمہوری شگوفے پھوٹنے اور صدا بہار پھول بننے لگیں گے اور اسی فضا میں ایمن الظواہری کے سے قافلہ سالار اسلامی جمہوریت کے علمبردار اخوان المسلمون کے ساتھ آ ملیں گے۔