پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کیلئے بھارت کو اب پاکستان کیخلاف جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب بھارت پاکستان کیخلاف بھر پور طریقے سے آبی جارحیت کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ جب بھارتی وزیراعظم واجپائی نے بس کے ذریعے 1998 میں پاکستان کا دورہ مکمل کر کے بھارت پہنچے تو وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے پاکستانی قوم کو خوشخبری سنائی کہ اب مسئلہ کشمیر حل ہو جائیگا۔ اسکے برعکس بھارت میں وزیر اعظم واجپائی نے پنجا ب کے پانچ دریاﺅں کے پانیوں کو علامتی طور پر دریائے سند ھ میں بہاتے ہوئے بیان دیا کہ یہ پانی ہمارے درمیان نفرتوں کی سرحدیں گرادینگے۔راقم الحروف نے اپنے کالم کے ذریعے قوم کو خبردار کیا کہ واجپائی کے ذہن میں پاکستان کیخلاف خوفناک شیطانیت ابھر آئی ہے اسکا خیال ہے اگر اقتصادی ناہمواری کی وجہ سے مشرقی جرمنی کی عوام دیوار برلن گرا سکتے ہیں تو معاشی بدحالی کی شکار پاکستان قوم مجبور ہو کر اکھنڈ بھارت کا حصہ کیوں نہیں بن سکتی اس مقصد کے حصول کیلئے بھارت پاکستانی دریاﺅں پر ڈیمز تعمیر کر کے جب چاہیگا پانی روک کر پیاسا ماریگا اور جب چاہے گا پانی چھوڑ کر ہمیں ڈبو دیا کریگا۔اس مقصد کے حصول کیلئے بھارت پاکستانی دریاﺅں پر 62 ڈیمز تعمیر کر چکا ہے 31 ڈیمز کی تعمیر کی منظوری لوک سبھا سے ہو چکی ہے۔اس منصوبے کے تحت 190 ڈیمز تعمیر ہونگے۔پچھلے چند سالوں سے بھارت دریائے چناب کے پانی کو روکنے کی سازشوں میں مصروف رہا ہے جس پر حکومت پاکستان نے بار ہا احتجاج کی آواز بلند کی ہے۔ حالیہ طوفانی بارشوں کا پانی جب سیلابی شکل اختیار کر گیا تو بھارت نے جمع شدہ پانی چھوڑ کر دریائے چناب کی تاریخ کے بد ترین سیلا ب کو آبی جارحیت کے طور پر پاکستان کیخلاف استعمال کیا ہے پانی روکنے کے اثرات یہ ہیں کہ ہماری زمینیں اس قدر بنجر کی جارہی ہیں کہ اکثر و بیشتر پاکستانی سبزی منڈیوں میں بھارتی ٹماٹر، آلو، پیاز و دیگر سبزیاں فروخت ہو رہی ہوتی ہیں۔جہاں تک آبی جارحیت کا تعلق ہے حالیہ سیلاب سے تقریباََ اڑھائی کروڑ انسان متاثر ہوئے ہیں دو ہزار پانچ سو افراد سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں، ہزاروں سکولوں کی عمارتیں زمین بوس ہو نے سے لاکھوں بچوں کو مدتوں تک حصول تعلیم کیلئے مشکلات سے گزرنا پڑیگا اربوں ڈالرز کی تیار فصلیں برباد ہو گئی ہیں۔پاکستانی معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔جتنے سیلاب پاکستان میں آئے ہیں وہ سب کے سب جمہوری حکومتوں کے دور میں آئے ہیں 55 سے لیکر 2014 تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کچھ بند آبادیوں کو بچانے کیلئے توڑے جاتے ہیں جبکہ دوسری آبادیاں انہی بندوں کے توڑنے سے ڈوب رہی ہوتیں ہیں یہ خوفناک کھیل پچھلے 59 سالوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ سیلاب زدگان کیلئے کیمپس لگتے ہیں، خوراک تقسیم کی جاتی ہے، بھکاری ملک میں اتنے پیدا ہوگئے ہیں کہ ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے وہ بھی سیلاب زدگان میں شامل ہو جاتے ہیں۔عالمی ادارے بھی پاکستان کو امداد دے دے کر تھک چکے ہیں ۔ انہیں بھی یقین ہو چکا ہے کہ بھکاریوں کی طرح حکومتوں نے بھی ایسی نا گہانی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا وطیرہ بنا لیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آجتک سیلابوں سے بچنے کیلئے کوئی عملی منصوبہ بندی نہیں ہو سکی۔ نہ تو سیلابی نہریں تعمیر کی گئیں جس سے آسانی سے دریائے ستلج اور دریائے راوی میں ڈالا جا سکتا تھا، دریاﺅں کیساتھ پانڈ ایریازنہیں بنائے گئے ہیں ۔ جن میں سیلابی پانی جمع کیا جاتا۔ اُلٹا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ستلج دریا کے اسلام ہیڈ ورکس کے پانڈ ایریا کا پانچ سو مربع زمین نیلام کر دی گئی ہے۔ لاڈم سر کے پانڈ ایریا میں سیر گاہیں اور موٹل بن گئے ہیں۔ہمیں اپنے ہمسایہ ملک چین سے ہی سبق حاصل کر لیا ہوتا ۔ اُسنے ملک کے تمام نشائیوں اور جیلوں میں پڑے جرائم پیشہ افراد سے دریاﺅں کی کھدوائی کروائی۔اس سے ایک فائدہ یہ ہوا دریا گہرے ہو گئے اور دوسرا نشائیوں سے بھی جان چھوٹ گئی کچھ تو مر گئے باقی نے نشہ چھوڑ دیا۔ ہمارے پاس جیلوں میں بند مجرموں، نشائیوں اور صحت مند بھکاریوں کی کمی نہیں انہیں پکڑ کر دریاﺅں کی کھدائی پر لگا دیا جائے۔نشائیوں اور پیشہ ور بھکاریوں سے بھی جان چھوٹ جائیگی اور سیلابوں سے بچنے کیلئے دریاﺅں کی گہرائی بھی ہو جائیگی۔حکمران بھی سیلاب زدگان کی امداد کیلئے غیر ملکی امدا د کے منتظر نہیں رہینگے۔سند ھ طاس دریاﺅں کے پانیوں کی تقسیم کا معاہدہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں جس پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی۔ اسمیں سب سے بڑی غلطی ستلج ، بیاس اور راوی کے دریاﺅں کی مکمل بندش ہے۔ جسکی وجہ سے مخلوق خدا کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ دنیا کا کوئی قانون دریاﺅں کی مکمل بندش کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ جب دریا مرتے ہیں تو انکی تہذیبیں بھی فنا ہو جاتی ہیں ۔ مخلوق خدا کو زندہ رکھنے کیلئے دریاﺅں کی ریچارجنگ کیلئے پانی چھوڑنا انتہائی ضروری ہے دریا ستلج، بیاس اور راوی کی بندش سے پینے کے پانی میں آرسینک زہر کی آمیزش شروع ہو گئی ہے ۔ جب مخلوق خدا کیلئے پینے کا پانی نہ رہا تو زندگی کا تصور کیسا۔ پانی کے بغیر بھی کوئی جاندار زندہ رہ سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستانی دریاﺅں پر ڈیمز تعمیر کر کے بجلی حاصل کرنے کا مسئلہ ہے بھارت بجلی پیدا کرنے کے بہانے ڈیمز تعمیر کر رہا ہے لیکن در اصل وہ پاکستان کیخلاف آبی جنگ لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ حکمرانوں میں سے کسی ایک نے بھی موجودہ آبی جارحیت کیخلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ اُلٹا پاکستان کے بھارت میں متعین سفیر صاحب نے اس موقع پر بیان دیا ہے کہ ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے اس لیے ان سے بہتر تعلقات قائم کئے جائیں۔ اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ظالم ہمسایوں کیخلاف جنگ کرنے کی تاریخ بھی بھر ی پڑی ہے۔ اپنے تحفظ کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہر پاکستانی نوجوان کو فوجی تربیت لازمی قرار دیا جائے۔ اگر یہودی اور امریکن نوجوانوں کیلئے فوج میں دو سال کی سروس لازمی ہو سکتی ہے تو پاکستانی نوجوانوں کو فوجی ٹریننگ کیلئے دو سال فوج کی ملازمت کیوں نہ کرائی جائے۔ بھارت سے بہتر تعلقات قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ بھارتی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت پاکستان میں لازمی ہونی چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور اور کمزور کی دوستی پائیدار نہیں ہوتی ہے کیونکہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی ۔ اسلام میں جہاد فرض ہے تو اسکے لیے جدید اسلحہ اور جدید سواری تیار کرنا بھی فرض ہے دینی مدارس ہوں یا دوسرے تعلیمی ادارے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرکے جہاد کیلئے جدید اسلحہ اور جدید سواری تخلیق کرنا ان کا فرض ہے۔