ہمیں ’’میں‘‘ کا رویہ چھوڑ کر ’’ہم‘‘ کا راستہ اپنانا پڑے گا۔ یہ بات شہباز شریف نے کہی ہے۔ یہ بات ان کے اندر سے نکلی ہے۔ ہمارے باہر کے سارے مناظر ’’میں‘‘ کی قید میں ہیں۔ ہم اپنی انا اور مفاد کے قیدی ہو کے رہ گئے ہیں۔ دوسروں کی عزت کرنا چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم ضد کی زد میں آئے ہوئے لوگ ہیں۔ اپنی اپنی انا میں فنا ہونے والے ہیں؟ دھرنے والے اور حکومت کرنے والے ایک ہو گئے ہیں۔ جمہوریت نام ہی احترام آدمی کا ہے۔ یہ بات اہل دل قانون دان ایس ایم ظفر نے کہی تھی۔ آج جمہوریت بچانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس بات کو سیاسی بنانے والے غیرجمہوری رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ غیرجمہوری رویہ ہی ’’میں‘‘ کا رویہ ہے۔ خود پسندی، رعونت، تکبر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا معاملہ ہماری زندگی کو شرمندگی اور درندگی کے درمیان لا کے چھوڑ گیا ہے۔ ’’میں‘‘ ایک انفرادی گرداب ہے جس میں سب کچھ ڈبو دیا گیا ہے۔ انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف سفر یکجہتی اور اتحاد کا سفر ہے۔ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے لئے خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ذات کی نفی ضروری ہے۔ نفی کے بعد اثبات شروع ہوتا ہے۔ اپنی نفی کئے بغیر کوئی بھی اپنے آپ کو کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ دین فطرت اسلام کی ابتدا ہی نفی سے شروع ہوتی ہے۔ لاالٰہ الااللہ۔ کوئی خدا نہیں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ نفی نفی ہے۔ اسے مثبت کرنے کا معرکہ ضروری ہے۔
ہم نے انکساری کیوں چھوڑ دی۔ انکسار تو وقار اور اعتبار کا محافظ ہے۔ انکساری اور خودداری ایکدوسرے کی بہنیں ہیں۔ ’’میں‘‘ کی حفاظت ’’میں‘‘ سے چھٹکارے میں مضمر ہے۔ انکسار اپنے آپ سے بھی بھلائی ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی ہے۔ انکسار نیکی ہے مگر مغرور اور ظالم کے سامنے انکسار گناہ ہے۔ غیرت اور غیریت میں فرق کرنا ضروری ہے۔ عاجزی معجزہ ہے۔ یہ بندے کے دل میں خدا کی مہربانی سے پیدا ہوتی ہے۔ معجزہ آخری نعمت ہے اور یہ آخری نبی حضرت محمدؐالرسول اللہ کے بعد کسی بندے سے سرزد نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان سب سے بڑے رسولؐ سے زیادہ عاجزی کی حقیقت کو کوئی نہیں جانتا۔ جب آپؐ معراج پر تشریف لے جا رہے تھے۔ معراج عروج کی انتہائی شکل ہے۔ سیاروں تک رسائی کی خواہش اور کوشش معراج نبویؐ کے تصور کی مرہون منت ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
آسمانوں کی آخری حد تک جاتے ہوئے آپؐ نے ہمسفروں سے فرمایا کہ آج میں دونوں جہانوں کے مالک اللہ تعالیٰ کے حضور ایسی حیز لے کے جا رہا ہوں جو اس کے پاس بھی نہیں ہے۔ فرشتے حیران ہوئے کہ اللہ کے دربار میں کس چیز کی کمی ہے۔ آپؐ نے انہیں مزید حیران کیا کہ میں اللہ کے دربار میں عاجزی لے کے جا رہا ہوں اور عاجزی اس کے پاس نہیں ہے۔ بندگی عاجزی ہے اور بندگی بندے کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ ہم اس اعزاز سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم نے تدبر کی بجائے تکبر کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ ہم اپنے جیسا کسی کو نہیں سمجھتے۔ دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان تو دوستوں کو بھی حقیر سمجھتے ہیں۔
وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے۔ مگر لاہور کے بڑے جلسے میں خیبر پختون خوا کے ’’عمرانی وزیر اعلیٰ‘‘ پرویز خٹک پورے پروٹوکول کے ساتھ تشریف لائے۔ کوئی بھی وی آئی پی اس طرح نہ آیا ہو گا جس طرح عام لوگ آئے۔ یہ تبدیلی تو آ چکی ہے کہ لوگوں میں اپنے ہونے کا شعور بیدار ہو گیا ہے۔ انہیں اپنے حقوق کا پتہ چل گیا ہے۔ اس کی سچائی یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے۔ غیرضروری پروٹوکول ’’میں‘‘ کی تسلی کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔ ’’ضروری‘‘ پروٹوکول بھی ’’میں‘‘ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس عہد میں آدمی کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں۔ ظلم یہ ہے کہ عہد اور عہد حکومت میں فرق نہیں رہا۔ یہ بھی ’’میں‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ ’’میں‘‘ کے لئے کسی پوزیشن میں ہونا ضروری ہے مگر اپوزیشن میں بھی ’’میں‘‘ کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’میں‘‘ سے بچنے کے لئے ’’ہم کا راستہ اپنانا پڑے گا۔
میرے ابا مرحوم اکثر ایک مصرعہ بڑے جذبے سے پڑھتے تھے۔
’’میں‘‘ نو مار کے منج کر تے نکا کر کے کٹ
’’میں‘‘ ایک منفی کیفیت ہے۔ اس کی مسلسل روک تھام کرنا پڑتی ہے۔ مسلسل اس کے لئے اپنے دل اور ضمیر کا پہرہ دینا پڑتا ہے۔ تو پھر سب کو ساتھ لے کے چلنے کا طریقہ غالب آتا ہے۔ اس کے لئے تصوف کا راستہ سب سے مفید رہتا ہے۔ ہم جب 20 کروڑ عوام کی بات کرتے ہیں تو جمہوریت کا نام لیتے ہیں مگر یہ صرف بات کی حد تک نہ ہو۔ کوئی عملی کارروائی بھی ہو۔ ’’ہم‘‘ کا احساس جتنا صوفیوں کی محفل میں تھا وہ کسی حکمران کے دربار میں نہ تھا۔ دربار اور محفل کا فرق مٹانا ہو گا تو بات بنے گی۔ جس جگہ اجازت لے کر جانا پڑے وہاں جانا ہی نہیں چاہئے۔
نہ تاج و تخت میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
قلندر وہی ہے کہ جو انکساری اور خود ارادی میں فاصلہ نہ رکھے۔ آج کل لوگوں کو کچھ نہ کچھ صوفی ہونا چاہئے۔ آج نہ صوفی رہے نہ حکمران رہے۔ تصوف کے تین مرحلے ہیں۔ عمل، علم اور ذوق ۔ تصوف کا ذوق تو کم ازکم ہر آدمی کے اندر ہونا چاہئے۔ اس ذوق و شوق میں بیک وقت آدمی انکساری اور خودارادی کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے۔ یہی ادا آدمی کو اپنے آپ سے اور دنیا و مافیہا سے سے بے نیاز کرتی ہے۔
میں ناہیں سب توں
جب اس مقام تک کوئی پہنچتا ہے پھر ’’میں‘‘ اور ’’تو‘‘ میں فرق مٹ جاتا ہے۔ من و تو کا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بات ایک حکمران نے کہہ دی ہے کہ اب ’’میں‘‘ کا رویہ چھوڑ کر ’’ہم‘‘ کا راستہ اپنانا پڑے گا۔
حکمران اور صوفی میں بہت کم فرق ہوتا ہے جو اس حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے۔ وہ حکمرانی کی حیرانی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ نجانے ہمارے سیاستدان حکمرانی کی پریشانی سے کب نکلیں گے۔ یہاں مجھے صداقت اور جرات کے تخت پر بیٹھے ہوئے شورش کاشمیری کا ایک جملہ یاد آیا جو مجھے آغا مسعود شورش نے سنایا ہے۔ عمرے سے واپسی کے بعد انہوں نے کہا۔ حکمرانو! عشق اور شرک میں فرق کرو۔