اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے موجودہ انتخابی نظام کیخلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں مقرر کردہ اداروں کو دئیے گئے اختیارات کے تحت پارلیمانی کمیٹی کو موجودہ نظام کو یکسر تبدیل کرنے کی ہدایات جاری نہیں کر سکتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 1973ء کے آئین میں وہی جمہوریت درج ہے جو اس وقت رائج تھی۔ ذاتی طور پر موجودہ انتخابی نظام کو نہیں مانتے مگر اپنی ذاتی رائے قانون ساز ادارے پر کس طرح سے تھوپ سکتے ہیں‘ پارلیمانی کمیٹی صرف ایوان کو ہی جوابدہ ہے‘ دنیا میں مختلف نظام رائج ہیں جن میں سے تین نظام زیادہ اہم ہیں جن میں ووٹوں کے ذریعے نمائندگی‘ شرحی (تناسب) نمائندگی اور بغیر انتخابات نمائندگی شامل ہیں۔ انفرادی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اکثریت کے نمائندے پارلیمنٹ میں نہیں جاتے لیکن اسے ہم کسی پر لاگو نہیں کر سکتے۔ کوریا اور امریکہ سمیت ہر ملک میں جو نظام بھی رائج ہے وہ اس کو جمہوریت ہی کہتے ہیں۔ ہمیشہ قانون سازی حالات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ جمہوریت کا لفظ آئین‘ دیباچے اور الیکشن قوانین میں بھی موجود ہے‘ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ سب کچھ کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے۔ ہماری بھی حدود و قیود ہیں‘ سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ انتخابی قوانین کا ان کی روح کی مطابق نفاذ ہونا چاہئے۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ موجودہ انتخابی نظام اکثریت کا نظام نہیں ہے لہٰذا پارلیمانی کمیٹی جس کو وزیراعظم نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سپیکر کو خط لکھ کر قائم کرایا ہے، کو عدالت نہ صرف ہدایات جاری کر سکتی ہے بلکہ انہیں یہ حکم بھی دے سکتی ہے کہ انتخابی نظام میں اس طرح کی تبدیلیاں کی جائیں کہ یہ اکثریتی لوگوں کا نظام ثابت ہو سکے۔ دس ہزار روپے کا جرمانہ بھی ختم کیا جائے۔ عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے جرمانہ ختم کردیا مگر پارلیمانی کمیٹی کو ہدایات جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں غیر قانونی دیوہیکل اشتہاری بورڈز لگانے سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے سے شہر بھر میں لگائے گئے غیرقانونی اشتہاری بورڈز کے خلاف کی گئی کارروائی کی رپورٹس طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ بتایا جائے کہ ان بورڈز کو لگانے کی اجازت کس نے دی تھی؟ ان بورڈز کی کیا تفصیلات ہیں؟ انکی کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے کہ نہیں؟ اگر یہ شہریوں پر گرکرجانی و مالی نقصان پہنچائیں تو اس کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ گڈگورنس قائم کرنا حکومت کا کام ہے، عدالت کا کام انتظامی امور سرانجام دینا نہیں، کیا حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے؟ اگر ادارے درست کام کریں تو عدالتوں کو مداخلت کی ضرورت نہیں، اداروں کے درست کام کرنے سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ صرف دس فیصد رہ جائے گا۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ ہرطرف لوٹ مار ہے پانی کی تقسیم میں بھی تخصیص ہے، ملک کے بعض علاقوں میں جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پی رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ منرل واٹر پیتے ہیں، لوگوں کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں ان سب کا کون ذمہ دار ہے؟ چیئرمین سی ڈی اے کی رپورٹ پر سپریم کورٹ نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل افنان کنڈی نے عدالت کو بتایا کہ سابق چیئرمین فرخند اقبال کے دور میں یہ کام کیا گیا جس پر جسٹس جواد نے کہاکہ ان کے خلاف کارروائی کیا ہوئی؟ ڈپٹی اٹارنی جنر ل نے بتایا کہ عدالت کے حکم کے بعد کارروائی شروع کی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ روز ہمیں احساس دلایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نوٹس لے گی تو سی ڈی اے، ماحولیات اور دیگر ادارے کام کریں گے، یہ گورننس کا انحطاط ہے، ای او بی آئی، ڈی ایچ اے اور اوگراسمیت کہاں کہاں عدالت کو مداخلت کرنا پڑی، قوانین کی کس طرح دھجیاں اڑائی جارہی ہیں کسی کو احساس تک نہیں۔ جسٹس جواد کا کہنا تھاکہ عوام میں مایوسی ہے کہ ستر برس ہوگئے ہمارا کوئی پرسان حال نہیں، کوئی ایک محکمہ بتادیں جو خود سے کام کر رہا ہے۔
حکومت ناکام ہو گئی‘ عوام مایوس ہو رہے ہیں: جسٹس جواد
Oct 02, 2014