نہ پڑھائیں گے‘ نہ پڑھانے دینگے

کسی بھی ملک یا ریاست کیلئے اپنی عوام کو تعلیم ، صحت ، تحفظ اور سلامتی دینا اُنکے اولین ذمہ داری ہے۔بدقسمتی سے حکومتِ وقت ان تینوں چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہے۔ان کے پاس ہر وہ کام کرنے کیلئے فنڈز،وقت اور دماغ موجود ہے جو یہ خود کرنا چاہتے ہیں یا جس میں انھیں اپنا فائدہ نظر آتا ہے۔ میٹرو بس سروس ،سڑکیں اور فلائی اوورز کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں جنھیں بنانے میں یہ اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن جہاں عام شہریوں کے بنیادی حقوق جن میں تعلیم، صحت اور امن و امان شامل ہیں تو وہاں قفل لگا ہوا ہے۔
آج پرائیویٹ سکولوں کی بڑھتی ہوئی فیس کے معاملے نے طول پکڑا ہوا ہے اور ہماری حکومت اس میں سب سے آگے ہے ،اس لئے نہیں کہ انکے دلوں میں لوگوں کا درد آ گیا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ چند والدین کو ہم خیال بنا کر آج پھر انھیں الیکشن میں ووٹوں کی ضرورت ہے اور اپنے فائدے کیلئے یہ بغیر کچھ سوچے سمجھے تعلیمی اداروں کو مفلوج کر نے کے درپے ہیں ۔ آپ سب جانتے ہیں کہ دُنیا میں معیاری تعلیم کہیں بھی سستی نہیں نجی سکول پاکستان میں زیرِ تعلیم 40% بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں اور صوبہ پنجاب میں یہ تعداد 60% ہے۔ ان سکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے بہت سے بچوں نے نا صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ آپ کسی بھی شعبے میں چلے جائیں یہ بچے اپنی مثال آپ ہیں ۔ان سکولوں میں نا صرف تعلیم بلکہ بچوں کے سیرت و کردار کی تعمیر پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے انکے تحفظ کو یقینی بنایا جانا شامل ہے۔یہاں بہترین اساتذہ کی خدمات کے حصول کو یقینی بنایا جا تا ہے ۔ مزید برآ ں ان اساتذہ کو نا صرف مزید پیشہ وارانہ تربیت دی جاتی ہے بلکہ انکی کارکردگی کی بنیاد پر انکی تنخواہوں میں 20%تک اضافہ بھی کیا جا تا ہے۔ہر نجی سکول اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے۔پاکستاں جیسا ملک جو اس وقت بجلی کے بد ترین بحران کا شکار ہے وہاں یہ سکول طلبہ کی سہولت کیلئے بھاری جنریٹر ز استعمال کرتے ہیں ۔ اشیا کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔اس میں تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافہ بھی سر فہرست ہے۔ ان سب چیزوں کو پرائیویٹ سکولوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا لیکن ان سب کے با وجود یہی ادارے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں ۔جن اداروں کو حکومت خود کنٹرول کرتی ہے جیسے ایچی سن،لارنس کالج گھوڑا گلی اور صادق پبلک سکول ،ان سکولوں میں عمارتیں اور زمین مفت ہونے کے باوجو د فیس زیادہ ہے ۔پھر پرائیویٹ سکولوںہی سے فیسوں میں کمی کا مطالبہ کیوں؟
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پرائیویٹ سکولوں نے والدین پر فیسیوں کا بہت بوجھ ڈال دیا ہے تو کیا انھوں نے اس بوجھ کو کم کرنے کیلئے کچھ اقدامات کئے ہیں ؟ کیا حکومت کی طرف سے اُن سکولوں کیلئے جگہیں مختص کی گئی ہیں ؟ کیا ہر بچے کیلئے والدین کو فیسوں کے وائوچرز جاری کئے گئے ہیں ۔ جیسا کہ اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ہو تا ہے۔ اس طر یقے سے مستحق والدین اپنے بچوں کو نجی سکولوں کے ذریعے معیاری تعلیم دلوا سکتے ہیں۔ہمارے ہاں کچھ سو روپوں سے لیکر ہزاروں تک کی فیس والے سکول ہیں جہاں معیاری اور غیر معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔اس بات کا فیصلہ والدین نے کرنا ہے کہ اُن بچوں کیلئے کیا ٹھیک رہے گا۔ وہ اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کیلئے کتنی رقم مختص کر سکتے ہیں ۔ اگر ایک طبقہ اپنے بچوں کو ایلیٹ کلاس میں پڑھا رہا ہے اور دوسرا درمیانے طبقے کے سکول میں تو یہ دو طبقوں کی لڑائی ہے ۔
نا صرف پرائیویٹ سکول بلکہ پرائیویٹ اسپتا ل بھی جو حکومت کی کسی بھی قسم کی عنائیت کے بغیر کام کر رہے ہیں اُنکی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے حکومت نالاں ہیںجبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جانیوالے مسائل کی طرف سے آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے ۔ایک سرکاری اسپتال میں اسکے عملے کو اس مرتبہ عید پر بھی تنخواہ نہیں ملی ۔واضح رہے کہ اس اسپتال کا عملہ پہلے ہی تین ماہ کی تنخواہ نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہے۔آج لوگ اسپتالوں میں پڑ ے مر رہے ہیں لیکن یہ پہلے سے بنی ہوئی سڑکوں کو پھر سے توڑ کو بنانے میں مگن ہیں ۔انہی سڑکوں کی تعمیر کو بنیاد بناتے ہوئے یہ پھر الیکشن میں لوگوں کا اعتماد حاصل کر ینگے کیونکہ ہر چمکتی چیز لوگوں کو سونا لگتی ہے۔آپ نے کبھی دیہاتوں میں موجود سرکاری سکولوں کی حالت ِ زار پر نظر ڈالی ہے۔اُن سرکاری سکولوں کی عمارتیں یا تو آسیب زدہ ہو گئی ہیں یا انھیں مویشیوں کے باڑے کے طور پر استعمال کیا جا تا ہے۔
سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجو د یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ حکومتِ وقت سے مطالبہ کرنے کی بجائے کہ وہ اپنے سکولوں کے معیار کو بہتر بنائے، پرائیویٹ سکولوںکی معیاری تعلیم دینے پر حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔اس مسئلے کا حل یہ نہیں جو یہ لوگ نکالنا چاہتے ہیں ۔پاکستان میں جو ادارے بہتر کام کرتے ہیں اُن کو کرنے دیا جائے ۔حکومت کیلئے اور بہت سے توجہ طلب مسائل ہیں جنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے۔ہمیں بحیثیت قوم قائد اعظم کے اس قول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔
’’تعلیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ دُنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ اگر ہم نے تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ ترقی نہ کی تو نا صرف یہ کہ ہم دوسروے ملکوں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ شائد ہمارا وجود ہی قائم نہ رہے۔‘‘

ای پیپر دی نیشن