جمہوری آئینی حق

وطن عزیز میں آجکل حقوق کو حاصل کرنے کے لیے روزانہ جلوس ہوتے ہیں سیاستدان ، وکلائ، ڈاکٹر صاحبان اور ان کے دیکھا دیکھی ملک کے دیگر طبقات بھی اسی رو میں بہہ رہے ہیں۔ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ہر فرد کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ الحمدللہ! ہم مسلمان ہیںاور اسلام کی نگاہ سے دیکھیں تو بڑا خوبصورت انداز سامنے آتا ہے کہ ہر فرد کی ذمہ داری کسی دوسرے کا حق بنتی ہے مزدور سے لے کر حکمران تک اگر اپنی ذمہ داری نبھائیں تو کسی کو حق مانگنا نہ پڑے اس لیے اسلام حق دینے کی تاکید کرتا ہے یہ حق مانگنے کا رواج غیر اسلامی معاشرے کی ایجاد ہے کہ حقدار شور شرابا کر کے حق مانگے اسلام مانگے بغیر ہر ایک کو اس کا حق پہنچانے کا حکم دیتا ہے۔ جب سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں تو ان مسافروں کا کوئی جمہوری آئینی حق نہیں بیمار ایمبولینسوں میں دم توڑ دیتے ہیں ان کا کوئی حق نہیں؟ دکانداروں کا کاروبار رک جاتا ہے ان کو بھی کوئی حق حاصل نہیں خصوصاً وہ مزدور جو روزانہ کی روزی روز کماتے ہیں ان کا اور ان کے افلاس زدہ بچوں کا کوئی جمہوری آئینی حق نہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کیسا آئین اور کونسا دستور ہے جو ایک سیاستدان کو سب کے حقوق پامال کرنے کا حق دیتا ہے وکلاء حضرات بڑے احترام سے گزارش ہے کہ فیس وصول کر لیتے ہیں مگر کام کے وقت ہڑتال پر چلے جاتے ہیں سائل دھکے کھا رہے ہوتے ہیں عدالتیں ویران پڑی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر، نرسیں روڈ پر آ جاتے ہیں اور مریض کسمپرسی کی حالت میں چھت کو گھورتے ہوئے جانیں دے رہے ہوتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ جن کے جمہوری آئینی حقوق بحال کرانے کی جنگ لڑی جا رہی ہوتی ہے اُن نادانو ںکے ہاتھوں ہی خود اُن ہی کے حقوق پامال کرائے جا رہے ہوتے ہیں سڑکیں انہی سے بند کرائی جا رہی ہوتی ہیں اُن جیسے عام عوام کی دوکانیں اُنہی کے ہاتھوں لٹوائی جاتی ہیں، انہیں کی بسیں ا نہیں سے جلوائی جاتی ہیںعوام کی املاک عوام ہی کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں یا اگر سرکاری املاک کو نُقصان پہنچتا ہے تو وہاں بھی عوام ہی کا خون پسینہ لگا ہوتا ہے یہاں تک کہ عدالتوں پر، میڈیا ہائوسز پر، دفاتر پر حملے کرائے جاتے ہیںاور آخر اُنہیں کھانے کی میزوں پر لڑایا جاتا ہے اور لیڈران کرام یہ سب تماشہ کرنے کے بعد غریبوں کا درد لئے بُلٹ پروف ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں چمکتی کاروں کے جلوس اور پولیس کے جُھرمٹ میں اپنے دولت کدوں کو تشریف لے جاتے ہیں اس سب ڈرامے کا حاصل غریب عوام کو تنگی کا ناچ نچا کر اُنہیں پھر اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے اور جب کوئی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتا ہے تو پھر باہر رہ جانے والے بھی کھیل اُسکے خلاف شروع کر دیتے ہیں لہٰذا یہ طوفان کہیں تھمنے کا نام نہیں لیتا ایک مسلسل عمل ہے جو پون صدی سے وطن عزیز میں دُہرایا جا رہا ہے۔ دہائی دینے والوں میں وہ سب رہنما بھی ہیں جو کئی کئی بار وزارتوں کی لذتیں پا چکے ہوتے ہیں کون پوچھے کہ یہ سب جس کا آج مطالبہ ہو رہا ہے آپ نے اپنے دورِ اقتدار میں کیوں نہ کیا یہاں تک کہ بعض حضرات کے پاس تو فی الوقت بھی حکومتی اختیار موجود ہیں تو یہ سب کچھ جو اس سارے ہنگامے میں کیا جا رہا ہے وہ وہاں عملاً کیوں نہیں کیا جا رہا جہاں حکومت کا اِختیار اُن کے پاس ہے ہمیں مغربی ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں کے وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا ہمارا کیوں نہیں دیتا تو کم از کم انہی سے جلوسوں کا سلیقہ بھی سیکھ لیا جائے کہ وہاں تو بڑے سے بڑا جلوس سڑک بند نہیں کرتا، جلوس بھی رواں رہتے ہیں اور ٹریفک بھی چلتی رہتی ہے، دکان بند نہیں ہوتی، کوئی بازار بند نہیںکرایا جاتا، کوئی شور نہیں ہوتا، لوگوں کو پریشان نہیں کیا جاتا، اسلام کی راہ تو بہت خوبصورت پُرسکون اور باعثِ رحمت باری ہے مگر ہمارا ذوقِ روشن خیالی ہمیں ادھر آنے نہیں دیتا تو چلو اہل مغرب ہی سے سیکھ لیںاور خوبصورت اور بہتر انداز اپنائیں یہ دھرنا برصغیر میں جناب گاندھی صاحب نے متعارف کرایا تھا وہ بات بات پر دھرنا دیا کرتے تھے یہ ہندی کا لفظ بھی اس کام کے لیے انہوں نے اختیار کیا تھا پھر پاکستان کی ایک دینی جماعت نے اسے جوں کا توں اپنا لیا اور اب تو ہر خاص و عام کو یہی طریقہ راس آ گیا ہے اور جب چاہو جہاں چاہو دھرنا دے دو باقی مخلوق کا اللہ وارث وہ جانے اس کی مخلو ق جانے اور جو تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو وہ اُس سے بھی زیادہ بھیانک ہے لوگ مرتے ہیں سڑکیں، ہسپتال، عدالتیں اور بازار بند ہوتے ہیں دوسرے دن کھل جاتے ہیں تو حکمران فرماتے ہیں کسی نے ہمارا کیا بگاڑ لیا سبحان اللہ! بات بگاڑنے یا سنوارنے کی نہیں، اللہ کریم نے کروڑوں لوگوں کے حقوق کا محافظ آپ کو بنایا ہے۔ ایک دن اُسکی عدالت میں بھی حاضر ی ہو گی وہاں بھی پوچھا جائے گا کس نے کس کا حق مارا تو اُس فریادی مخلوق کی حسرت زدہ دہائیوں کا آپ کے پاس کیا جواب ہو گا؟ دنیا میں آپ لوگ پہلے حکمران نہیں ہیں جب سے معمورۂ عالم آباد ہوا ہے یہ نظام کسی نہ کسی صورت چل رہا ہے اس کا انداز اچھا یا بُرا ہو سکتا ہے اس کا طرزِ حکمرانی زیرِ بحث آ سکتا ہے مگر معاشرہ قائم اسی طرح سے ہے اِدارے، حکمران، حکومتیں اور عوام۔ سو اگر ایک بندہ بھی احتجاج کرے تو حکومت پر لازم ہے کہ اس سے پوچھے اگر وہ درست کہہ رہا ہے تو اُسکے ساتھ انصاف کیا جائے اگر اُسے غلط فہمی ہے اور اُسکے مطالبات درست نہیں تو دلائل سے اُسے سمجھایا جائے مگر ایسا کیوں ہو جب وطنِ عزیز پر حکمرانی ہی غیر مُلکی باسیوں کی ہو جن کے مال باہر کے مُلکوں میں اولادیں دوسرے مُلکوں اور شہریت دوسرے مُلکوں کی رکھتے ہیں تو یقیناً وہ اُن مُمالک اور اُن ممالک کے باسیوں کے حقوق کا پورا لحاظ رکھتے ہوں گے۔ وہاں ہر بات کا حساب بھی ہوتا ہو گا اور ہر قانون کی پاسداری بھی۔ یہاں لوگ قانون ماننے کیلئے نہیں اپنا حکم منوانے کیلئے ٹھہرتے ہیں۔ کہاں کے قانون اور کیسی پاسداری! ایک طبقہ جو اشرافیہ کہلاتا ہے یہ سب ڈرامے صرف اُنکی خواہشات کی تکمیل کیلئے ہوتے ہیں خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں۔ ہمیں اس بارے سوچنا ہو گا جسے تکلیف ہے ضرور بیان کرے جس کیساتھ زیادتی ہوئی ہو ضرور احتجاج کرے مگر اپنا حق مانگنے کیلئے دوسروںکے حقوق پامال نہ کرے۔ کاش ایسا ہو اللہ کریم کرے ایسا ہو ورنہ یہ گزارش ہے کہ آپ بھی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن