سیاسی ڈھکوسلہ اور لارا لپہ

گذشتہ چند روز میں ملکی سلامتی سے متعلق کچھ واقعات اتنی تیزی سے رونماہوئے ہیںکہ سب کو ایک جگہ سمو دینا ممکن نہیں مگر بھارتی آرمی چیف کی دھمکیوں کو میں ’’ماڑے دی زنانی ہوندی بھابھی سب دی‘‘ کے مصداق سمجھ کر نظرانداز نہیں کر سکتا ۔ یقینا جس ملک کی خارجی پالیسی پچھلے دس گیارہ سال سے طے ہی نہ ہو تو ڈنگ ٹپائو مہم کتنے دن چل سکتی ہے؟ بے شک نئے نامزد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے اقوامِ متحدہ میں دبنگ تقریر کرکے بھارتی ہم منصب مسز سُشماسوراج کو کرارا جواب دیا ہے بلکہ مجھے امید ہے سوشل میڈیا پر پاکستانی قوم کی مزاحمت دیکھ کر بپن راوت کی بھنگ کا نشہ بھی اتر گیا ہوگا مگر ایک تلخ حقیقت ہمیں یہ بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ماضی میں ہماری کی غلطیوں کا احتساب اور حساب ہمیں کہیں تو دینا ہوگا۔
قارئین! سانحہ ماڈل ٹائون کو بپا ہوئے سوا چار سال گزر چکے ہیں۔ اس سانحہ کی ایف آئی آرز بھی کچھ اتنی آسانی سے درج نہ ہو سکیں تھیں اور صرف ایک ایف آئی آر کے اندراج کے لیے لاکھوں لوگوں نے لاہور اور اسلام آباد میں دھرنے دیئے تھے اور ان دھرنوں کے دوران بھی آدھ درجن کے قریب پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنان کو لہو سے اپنی قیمت چکانی پڑی اور پھر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کاوشوں اور پاک فوج کے ملکی سلامتی کے اس ایشو کو سیریس لینے کی وجہ سے اس ایف آئی آر میں سابق وزیراعظم، سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سات وفاقی وزراء کا نام شامل کیا گیا۔ حتیٰ کہ جب یہ معاہدہ طے پا رہا تھا تو ایف آئی آر کی تحریک کو متاثرین نے مسترد کر دیا اور پھر مکمل کریمنل دفعات کے ساتھ اس ایف آئی آر کی کاپی پہلے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی ٹیم کو بھجوائی گئی اور ان کی رضامندی کے بعد اس کو حتمی قرار دے کر متعلقہ تھانے نے سیل بمہر کر دیا۔ اس دوران حالات کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے فوج اور عدلیہ پر اعتبار کرتے ہوئے دھرنہ ہٹانے کا اعلان کر دیا مگر اس سے پہلے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کی عمارت پر حملے کے دوران عمران خاں اور ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک دوسرے کو اپنے سیاسی کزن کے طور پر قبول کر لیا اور پھر 30اور 31اگست کی درمیانی رات قریب تھا کہ عمران خان صاحب کو ہنگامے اور جلائو گھیرائو کی صورت حال کے دوران جان سے مار دیا جاتا کہ منہاج القرآن کے ہزاروں کارکنان آگے بڑھے اور انہوں نے نہ صرف عمران خان صاحب کی جان بچائی بلکہ ایلیٹ فورس کا بھرپور مقابلہ کیا جس پر عمران خان آج بھی اقرار کرتے ہیں مگر اس کے بعد اے پی ایس کا دلخراش سانحہ رونما ہو گیا اور اسی عوامی دبائو کے تحت عمران خان کو بھی دھرناواپس لینے کی کال دینی پڑی ۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے راقم کو اپنا پولیٹکل سیکرٹری مقرر کردیا اور پھر میں اگلا تمام عرصہ اس کاز اور عہدے سے وابستہ رہا۔ اس دوران 2016ء کی موومنٹ اور دیگر واقعات رونما ہوئے مگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی کرشماتی شخصیت اور ان کا بین الاقوامی لیول اور معیار، لیکن اپنے ساتھ کمزور ترین سیاسی سوچ رکھنے والی قیادت اوراس بی ٹیم کا فیصلہ نہ کر سکنے کی سکت رکھنا تحریک کو اس موڑ پر لے آئی کہ 2017ء میں مال روڈ لاہور پر پاکستان عوامی تحریک، پی پی پی اور پی ٹی آئی کا مشترکہ جلسہ ہوا جس کو عوامی پذیرائی نہ ملی اور یہ اس قدر فلاپ شو تھا کہ اس کے اثرات نے نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی کی گرتی ہوئی دیوار کو مزید دھکادیا بلکہ پنجاب سے پی پی پی واش آئوٹ ہو گئی جبکہ اس فلاپ شو کے نتیجے میں منہاج القرآن اور پی اے ٹی کی تحریک کو شدید دھچکا لگا اور منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنان پی پی پی سے اتحاد اور پی ٹی آئی پر اعتبار نہ کرتے ہوئے غصے سے گھر بیٹھ گئے۔
مجھے یاد ہے کہ ان دنوں عوامی تحریک اورتحریک انصاف کے درمیان ملک بھر میں بھرپور احتجاج کرنے کا پلان بن رہا تھا لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔علامہ طاہر القادری صاحب کی طرف سے راقم اور عمران خان صاحب کی طرف سے جہانگیر ترین صاحب کے درمیان اس سلسلے میں متعدد دفعہ مذاکرات ہوئے۔ پھر میں نے اور جہانگیر ترین صاحب نے فیصلہ کیا کہ 3ستمبر کو راولپنڈی میں عوامی تحریک اور لاہور میں تحریک انصاف بھرپور عوامی شو کریں گے۔ اور پھر میں نے آدھی رات کے وقت ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو اس مجوزہ پلان کے متعلق بتایا جس پر ان کی رضامندی کے بعد فوری طور پر اعلان کر دیا گیا اور پھر 3ستمبر کو لاہور اور راولپنڈی میں احتجاج جلسوں اور ریلیوں کی وجہ سے حکومت تقریباً لڑکھڑا گئی تھی۔مجھے آج بھی یقین ہے کہ خود ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی شخصیت ایک عالمی لیڈر کے پائے کی ہے اور ان کے روحانی سحر اور علم کی وجہ سے آج بھی پوری دنیا میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے اور پاکستان میں ان کے لاکھوں کارکنان ان کی ایک جنبش کے منظر ہیں۔ بطور ایک تجزیہ نگار میں عوامی تحریک کے کارکنان اور منہاج القرآن کے ممبران اور سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس وقت کی حکومت کے سخت ترین دبائو اور انتہائی درجے کے مالیاتی لالچ کے باوجود ایک انچ بھی اپنی کاز سے پیچھے نہ ہٹے۔ سابقہ حکومت کی طرف سے کروڑوں روپے کی آفرز ٹھکرانے والی مسز تنزیلہ شہید کی بیٹی آج ڈاکٹر صاحب سے جب اپنا گفٹ وصول کر رہی تھی تو وہ خوشی کے جذبے سے سرشار نظر آ رہی تھی۔
یاد رہے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب گذشتہ دنوں جب کینیڈا سے پاکستان تشریف لائے تو اپنی بیٹیوں اور شہدا کی بیٹیوں اور بچوں کے لیے بالکل ویسے ہی تحائف لے کر آئے تو جس تحریک میں اتنا پیار اور فلسفہ شامل ہو اس کے عزم کو شکست دینا ممکن نہیں۔ قطعہ نظر اس کے کہ ہائی کورٹ لاہور کے فیصلے نے جلتی پر تیل کاکام کیا ہے اور پاکستان میں انصاف کی فراہمی پر کئی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ شاید حالات قادری صاحب کے کنٹرول میں نہ رہتے اور کارکنان انتقام لینے کے لیے خود باہر نکل آتے کہ اسی دوران ڈاکٹر صاحب کے سیاسی فرسٹ کزن وزیراعظم عمران خان صاحب کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی ، جس میں انہوں نے میری اطلاع کے مطابق ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ وہ مجھے صرف 2ماہ دے دیں اور وہ اپنی پہلی ترجیح کے طور پر سانحہ ماڈل ٹائون کے کیس کو عدالتی کٹہرے میں لائیں گے۔ ایک سیاسی طالب علم ہونے کے ناطے میرا یہ یقین ہے کہ وزیراعظم محترم سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے اقتدار کے شروع کے دنوں میں منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنان کے جذبات کو ٹھنڈا نہ کیا گیا تو ان کا اقتدار سو دن بھی پورے نہ کر پائے گا۔ ایک غیر جانبدار تجزیہ نگار کی حیثیت سے خود میری یہ رائے ہے کہ وزیراعظم عمران خان صاحب کا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو ٹیلی فون کال کرنا ایک ’’سیاسی ڈھکوسلہ‘‘ ہے اور یہ ڈنگ ٹپاؤمہم کا حصہ ہے کیونکہ صرف چار ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہونے والی حکومت کیا اتنی جلدی اس قابل ہو گئی ہے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث ایک سابق وزیراعظم ، ایک سابق وزیراعلیٰ ایک درجن سینئر بیوروکریٹس اور ڈیڑھ سو سے زائد اعلیٰ پولیس افسران کو انصاف کے کٹہرے میں طلب کر سکے؟اس وقت ملکی سلامتی کو درپیش خطرات اور پاکستان کے چاروں اطراف دشمنوں ی موجودگی اور ہمارا لڑکھڑاتی ہوئی معیشت ان سب کی موجودگی میں کوئی معجزہ اور کرشمہ اور صاف نیت ہی ہمیں منزل پر پہنچا سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن