بنی گالہ تجاوزات: عمران فیس دیکر سب سے پہلے اپنا گھر ریگولرائز کرائیں : چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت، ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں بنی گالہ کے علا قے میں تجاوزات سے متعلق ازخو نوٹس کیس میں سروے آف پاکستان کی رپورٹ کی روشنی میں کورنگ نالے کے اطراف قائم تمام تجاوزات گرانے کا حکم دے دیا ہے، چیف جسٹس میا ں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم عمران خان سپریم کورٹ میں درخواست لے کر آئے تھے، علاقے کو ریگولرائز کرنا حکومت کا کام ہے، بنی گا لہ ہاﺅس سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ اب درخواست گزار وزیراعظم بن گئے ہیں، اگر ان کی تعمیرات بے قاعدہ ہیں تو اسے بھی باضابطہ کریں، سب سے پہلے ریگولرائزیشن کی فیس وزیر اعظم کو ادا کرنی پڑے گی، وزیر اعظم سب سے پہلے ریگولرائزیشن کی مد میں فیس جمع کروائیں اور اپنا گھر ریگولرائز کرائیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بنی گالہ میں تجاوزات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے عدالت میں علاقے کے سروے کی رپورٹ پیش کی ، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتِ وقت اپنی تعمیرات سمیت دیگر تعمیرات کو بھی ریگولرائزڈ کرے، اپنے جرمانے بھی ادا کرے اور دوسرے لوگوں سے بھی جرمانے لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وقت نئی حکومت آچکی ہے اب جو بھی کرنا ہے اسی نے کرنا ہے۔ایڈدیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بنی گالہ کے 21 کلو میٹر کا سروے کیا گیا ہے، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 6 سو سے زائد کنال کے علاقے پر قبضہ ہے،درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کی جائیداد نجی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی گورنر ہاوس خرید لے تو کیا وہ نجی جائیداد ہوجائے گی؟دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے بھارتی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا جنہیں چیف جسٹس نے مسترد کردیا تھا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بھارتی عدالتی فیصلوں کو ہم نہیں مانیں گے۔ سپریم کورٹ نے قبضہ گروپ منشا بم کے سفارش کرانے سے متعلق میں ملک کرامت کھوکھر اور ندیم بارا کی معافی قبول کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو دونوں رہنماﺅں کے خلاف انضباطی کارروائی کا حکم دے دیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دیکھیں آئندہ ایسا نہ ہو، پی ٹی آئی دیکھے اس کے رہنما جرائم پیشہ افراد کی حمایت کرتے ہیں۔ پیر کو سپریم کورٹ میں قبضہ گروپ منشا بم کے سفارش کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، پنجاب پولیس نے بتایا کہ منشا بم کو تلاش کر رہے ہیں، ملا نہیں، مختلف مقامات پر چھاپے مار رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس کی زمینوں پر قبضے کئے گئے واگزار کرائیں، جن زمینوں پر حکم امتناع لیا ہوا ہے وہ فہرست ہمیں دیں، سوچ رہا ہوں معاملہ وزیراعظم کو بھجوا دوں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے پیچھے چلتی ہے۔ پی ٹی آئی وہی کام کرنے لگتی ہے جو ہم کرتے ہیں۔ قبضہ مافیا کے خلاف ایکشن کا کہا تو عثمان بزدار کا بیان آگیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس بم کے نام سے گھبرا تو نہیں گئی؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منتخب نمائندوں کا کلاشنکوف اٹھا کر ٹھاہ ٹھاہ کرنا انہیں سوٹ نہیں کرتا۔ نہ جانے کون سی بڑھکوں والی فلمیں دیکھ کر یہ حرکتیں کی جاتی ہیں، حکومت میں صاف ستھرے لوگ چاہئیں۔ اگر ہمیں بدنیتی نظر آئی یا وزیراعلی نے کسی کو تحفظ دیا تو انہیں بھی دیکھ لیں گے۔ دریں اثناءسپریم کورٹ میںایف آئی اے کی ملک بھر موجود ہا¶سنگ سوسائٹیوں سے متعلق پیش کردہ رپورٹ میں انکشاف کےا ہے کہ پاکستان میں 6 ہزار غیر رجسٹرڈ ہاﺅسنگ سوسائٹےاں جبکہ 2 ہزار 767 سوسائٹےاں رجسٹرڈ ہیں، فاضل عدالت نے ایف آئی اے کو ملک بھر میں موجود تمام ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے فرانزک آڈٹ کے حوالے سے مکمل تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی ہے، عدالت نے گوادر ہا¶سنگ سکیم سے متعلق وفاقی اور بلوچستان حکومت سے جواب طلب کرلےا ہے،دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پنجاب کو آپریٹو دفتر کو جگہ فراہم نہیں کررہی، میری اطلاعات کے مطابق پنجاب کوآپریٹو سوسائٹیز کے ریکارڈ میں جان بوجھ کر آگ لگائی گئی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ہاوسنگ سوسائٹیز کے فرانزک آڈٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پنجاب کو آپریٹو دفتر کو جگہ فراہم نہیں کررہی، میری اطلاعات کے مطابق پنجاب کوآپریٹو سوسائٹیز کے ریکارڈ میں جان بوجھ کر آگ لگائی گئی جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ رپورٹ میں بھی یہی لکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اب کسی سوسائٹی کی منظوری نہیں دینی جہاں کبھی ہریالی ہوتی تھی اب سوسائٹی بن چکی ہے، کیا سوسائٹی بناتے ہوئے ماحولیات کے معاملات کو مدنظر رکھا جاتا ہے؟یہ ہا¶سنگ اسکیم والے سرکار کو رجسٹریشن فیس کی مد میں کتنی فیس فراہم کرتے ہیں، سوسائٹیز پلاٹوں کے تبادلے پر بھی واجبات وصول کرتی ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ اور خیبرپی کے میں ہا¶سنگ سوسائٹیز کے فرانزک آڈٹ کی کیا صورتحال ہے؟دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکریٹری ہا¶سنگ سے استفسار کیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ایک ایک پلاٹ پر 15،15 لوگ دعویدار ہیں، الاٹمنٹ لیٹر کی وجہ سے حکومت اربوں روپے سے محروم ہورہی ہے،انہوں نے سیکریٹری سے مکالمہ کیا کہ الاٹمنٹ کا لیٹر کسی قانون کے مطابق نہیں، کوئی جائیداد بغیر رجسٹریشن کے منتقل نہیں ہوسکتی، جائیداد منتقلی کا سارا پیسہ سوسائٹیز کھا رہی ہیں،چیف جسٹس نے سیکریٹری سے استفسار کیا کہ کیا ایچی سن کالج کی ہا¶سنگ سوسائٹی کی نگرانی کر رہے ہیں، جس پر سیکریٹری نے جواب دیا کہ ہاں اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں، اس پر عدالت نے سیکریٹری ہا¶سنگ کو ہدایت کی کہ دو چارسوسائٹیز کا فرانزک آڈٹ کرکے دیں۔ عدالت نے گوادر ہاوسنگ اسکیم سے متعلق وفاقی اور بلوچستان حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے ایف آئی اے کو فرانزک آرڈر پر پیش رفت رپورٹ دینے کی ہدایت کی ہے، عدالت نے قرار دےا کہ تمام ہاوسنگ سوسائٹیز کے فرانزک آڈٹ کی اب تک کی صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں نے پی آئی اے اور نجی ایئر لائنز کے ان تمام پائلٹس اور کیبین اہلکاروں کے تعلیمی اسناد اور ڈگریاں طلب کرلی ہیں جن کی تصدیق تا حال نہیں ہوسکی ہیں عدالت نے قرار دےا کہ اگر تین دن میں رجسٹرار آفس میں ڈگرےاں نہ جمع کروائی گئیں تو عدالت ائر لائنز کے سی ای اوز کو ذاتی حیثیت میں طلب کرے گی، ڈگریوں کی تصدیق کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں جو مشکلات پیش آرہی ہیں ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی آئی اے کے پائلٹس اور کیبین کریو کی مبینہ جعلی ڈگریوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا کہ جن افراد کی ڈگریوں اور سرٹفکیٹس کی تصدیق نہیں ہوئی عدالت خود ان کا جائزہ لے کر تصدیق کے لئے بھجوائے گی ۔عدالت نے ہدایت کی کہ ڈگریوں کی وہ نقول فراہم کی جائیں جو آسانی کے ساتھ پڑے جاسکیں جو پائلٹس اور کیبین کریو اسناد اور ڈگریاں فراہم نہ کریں انھیں آف لوڈ کیا جائے۔عدالت نے پی آئی اے کے جنرل منیجر پالیسی کی سرزنش کی جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بدمعاشی بنا رکھی ہے،کیا مخصوص لوگوں کی ڈگریاں چیک کرانا پی آئی کی پالیسی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی بورڈ نے ڈگریوں کی تصدیق کیوں نہیں کی؟ کراچی بورڈ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ 20ڈگریاں ایسی ہیں جن کو پڑھا نہیں جا سکتا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈگریوں کو پڑھا نہیں جا رہا تو فرانزک کروا لیں،یہ بتا دیں ڈگریوں کی تصدیق کب تک ہو جائے گی،؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ڈگریوں کی تصدیق کا عمل کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے،فوٹو کاپی پڑھی نہیں جا رہی تو بورڈ اصل ڈگری سے تصدیق کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈگریوں کے تصدیق میں اصل اسناد فراہم کرنا ائیرلائنز کا کام ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ دستاویزات آنے کے بعد دس دن میں متعلقہ بورڈ اور یونیورسٹیاں اسناد کی تصدیق کریں گے۔ سپریم کورٹ میں زائد فیسوں کی وصولی کے حوالے سے کیس کی سماعت ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارنے معروف نجی سکولوں کے فرانزک آڈٹ کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ تعلیمی درس گاہیں سٹیل ملز یا ٹیکسٹائل ملز نہیں، نجی سکول ممی ڈیڈی کلاس کو متاثر کرنے کے لئے سہولیات کے نام پر عوام کو لوٹ رہے ہیں، تعلیم کوکمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ،ہم نے یا آپ نے ٹیوشن پڑھ کرتعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ پیر کوسپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نجی سکولوں کی جانب سے زائد فیس اصولی کیس کی سماعت کی،عدالت عظمی میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ او اور اے لیول کر کے بہت چارجز لیے جا رہے ہیں، ہمیں فیسوں کا اسٹرکچر دکھائیں۔اس موقع پر وکیل نجی اسکولز نے کہا کہ فیسوں میں اضافہ رجسٹریشن اتھارٹی کی منظوری سے ہوتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو فیسیں بڑھانے کا جواز دینا ہوگا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سکول کواختیارات ہیں کہ وہ من پسند فیسیں بڑھائے، اگر اختیارات نہیں ہیں تو ان کوریگولیٹ کون کرتا ہے، کیوں نہ بڑے بڑے اسکولوں کا فرانزک آڈٹ کرا لیں۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اسکول ممی ڈیڈی کلاس کومتاثرکرنے کے لیے سہولتوں کے نام پر لوٹتے ہیں، ممی ڈیڈی کلاس والے سکول میں توآیا پیمپر بھی تبدیل کرتی ہے۔ پبلک ایجوکیشن سسٹم ملی بھگت سے زمیں بوس ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیراورغریب میں فرق دیکھنا ہوتوفہمیدہ کی کہانی آپا راحت کی زبانی دیکھ لیں، چیف جسٹس نے نجی سکولوں کی طرف سے اضافی لی گئی فیس سپریم کورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کروانے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں خواتین کیلئے مخصوص نشستیں مختص کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا یہ قانون سازوں کا کام ہے اسلام آباد کی اپنی کوئی اسمبلی نہیں اسمبلی نہ ہونے کے باوجود مخصوص نشست کیسے دے سکتے ہیں بہر حال ہم نوٹس کر دیتے ہیں جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا آرٹیکل پندرہ کی تشریخ ہو چکی ہے یہ معاملہ آئینی ترمیم سے حل ہو گا ۔ اسلام آباد کے ججز کی ٹرانسفر کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اس معاملے پر قانون سازی سے ہی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے.تب ہی یہاں کے ججز دوسرے صوبوں میں جا سکیں گے اور دیگر صوبوں کے ججز اسلام آباد آ سکیں گے.ہم نے 184/3میں اس معاملے کو دیکھنا ہے.ہم رولز نہیں بنا سکتے نہ ہی انھیں ریگولیٹ کر سکتے ہیں.ہم صرف انھیں کالعدم قرار دے سکتے ہیں.ہائی کورٹ کے رول کو ہم کس طرح کالعدم قرار دیں. آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل آفس اس معاملے پر تیاری کر کہ آئے۔ مزید برآں پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کے چیئرمین ثاقب عزیز کو عہدے سے ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی درخواست ایڈووکیٹ نبیل جاوید نے دائر کی درخواست میں وزیراعظم وفاق و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...