اسلام آباد (نامہ نگار+ نیٹ نیوز) قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر پر بھارتی فوج کی فائرنگ کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کر لی گئی۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے ایوان میں قرارداد پیش کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ایوان لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی مذمت کرتا ہے، بھارتی فائرنگ قابل مذمت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا بھارتی جارحیت کیخلاف متفقہ طور پر منظور کی قرارداد کی حمایت کرتے ہیں، پاکستان کی سالمیت کے معاملے پر ہم سب متحد ہیں، ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے، ہم بھرپور جواب دینا جانتے ہیں۔ جواب دیا تو بھارت اپنے آپ کو بھول جائے گا، فی الحال یہی جواب ہے ”اللہ اکبر“ حکومت کیطرف سے مسئلہ کشمیر پر ایک بار پھر قومی اسمبلی کے متحد ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کا جواب دینے کیلئے انتباہ کے طور پر نعرہ تکبیر بلند کر دیا۔ اس سے قبل قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر پر بھارتی فوج کی فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مشترکہ کمیٹی بنانے اور بھارتی ہائی کمشنر کی طلبی کا مطالبہ کیا۔ قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھارت کی سفاکانہ کارروائی ہے، اللہ نے راجہ فاروق حیدر اور ان کے ساتھیوں کو بچایا۔ انہوں نے کہا کشمیر میں آئے روز نہتے کشمریوں کو شہید کیا جا رہا ہے، بھارتی فوج کی بربریت پوری دنیا کے سامنے ہے، میری گزارش ہے واقعے کیخلاف مشترکہ کمیٹی بنا کر متفقہ قرارداد پیش کی جائے۔ اس موقع پر وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے کہا حکومت اس معاملے پر سخت ردعمل دے چکی ہے، اس معاملے پر وزارتِ خارجہ اور پاک آرمی کی جانب سے بیان آ چکا ہے، پارلیمنٹ قرارداد منظور کرنا چاہتی ہے تو اچھی بات ہے، اپوزیشن چاہتی ہے تو اس پر کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے۔ نکتہ اعتراض پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماءخواجہ محمد آصف نے کہا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں سی ڈی اے کے چار پانچ سکیل کے ڈھائی سو ملازمین کو تاحال سالانہ اعزازیہ نہیں ملا ہے، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے عمر ایوب کو معاملہ کو حل کرنے کی ہدایت کی۔ ایوان میں خورشید شاہ نے قطر کے وفد کا بیگ چوری ہونے کا معاملہ اٹھایا اور کہا بیس گریڈ آفیسر ملوث ہے جس کا سی سی ٹی وی کیمرے سے پتہ چلا پاکستان بدنام ہوا ہے تفصیلات سے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا جائے۔ کراچی میں بجلی کی ہائی ٹینشن وائر گرنے سے دو افراد کی ہلاکت سے متعلق سید امین الحق‘ اسامہ قادری‘ اقبال محمد علی خان اور انجینئر صابر حسین قائم خانی کے توجہ مبذول نوٹس پر وزیر مملکت عمر ایوب نے کہا بچے کے بازو کٹنے کی ذمہ داری کے الیکٹرک پر عائد ہوتی ہے۔ کے الیکٹرک نے بچے کے علاج کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے ضمنی مالیاتی بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا بل نے عوام کو خواب سے جگا دیا ہے۔ عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کو پورا کرنے کی بجائے عوام پر بوجھ ڈالا گیا۔ موجودہ حکومت کے قائدین نے الیکشن سے پہلے کہا تھا ہم الزام تراشی کے بجائے عملی اقدامات کریں گے‘ اقتدار ملنے کے بعد اس کے برعکس اقدامات کئے جارہے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی‘ ترقی واصلاحات مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے تحریک انصاف کی حکومت نے ضمنی بجٹ پیش نہیں کیا بلکہ سابقہ بجٹ کی تصحیح کی، مسلم لیگ (ن) نے پی ایس ڈی پی میں 350ایسی سکیمیں ڈالی جو منظور ہی نہیں ہوئی تھیں، بجٹ میں درستگی نہ کرتے تو بڑھ جاتا،گزشتہ حکومت نے بینکوں سے قرضے لیکر ملک چلایا، ہم گورادر میں آئل سٹی بنائیں گے،حکومت نے فیصلہ کیا ہے سی پیک پروگرام کو وسیع کیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا تعلیم، صحت، دیامیر بھاشا ڈیم سمیت عوامی اور قومی منصوبہ جات کے لئے تبدیلی کے دعویداروں نے منی بجٹ میں ایک روپیہ تک نہیں رکھا۔ چالیس دنوں میں چالیس تماشے ہوئے۔ پی ٹی آئی نے حکومت کو انکل سرگم کا پتلی تماشہ بنادیا ہے۔ نوازشریف سے حکومت چھینی جاسکتی ہے لیکن عوام کے دل میں وزیراعظم نوازشریف بستے ہیں۔ پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے چئیرمین کا تقرر سپیکر قومی اسمبلی کا استحقاق ہے، وزیراطلاعات کس حیثیت میں بیانات دے رہے ہیں۔ اسد قیصر پی ٹی وی پارلیمنٹ کا منصوبہ ختم کرنے کا نوٹس لے کر بجٹ بحال کرائیں۔ انہوں نے کہا تاریخ فیصلہ کرے گی سرخرو کون ہے اور روسیاہ کون ہوا۔ نواز شریف نے غریبوں کے درد کو سمجھا، نوجوانوں کا ہاتھ تھاما، روزگار دیا۔ملکی تاریخ میں ریکارڈ بجلی پیدا کی، ہسپتال، تعلیمی ادارے، ملکی ترقی کے عظیم منصوبے تعمیر کئے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں کے لئے بجٹ کو دوگنا کیا کیونکہ نوازشریف شخصی تنگ نظری سے بلند ہیں۔ انہوں نے کہا جب عمران خان دھرنے، فساد، انتشاراور گالی کی سیاست میں مصروف تھے، بل جلارہے تھے تو نواز شریف ملک میں گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگارہے تھے، ملک سے اندھیرے مٹارہے تھے۔ نوازشریف سڑکیں بنارہے تھے اور عمران خان صاحب سڑکوں اور شہروں کو بند کرنے میں مصروف تھے۔ پی ٹی آئی نے قوم کو سبز باغ دکھائے،بڑے بڑے دعوے کئے لیکن جب سے حکومت میں آئے اس وقت سے تماشے جاری ہیں۔ انہوں نے بجٹ تقریر کے دوران شاعری سے بھی مدد لی اور مرزا غالب کے شعرپڑھے۔ انہوں نے شعر پڑھا ”تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے، دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا“۔ نوازشریف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شعر پڑھا ”سوال یہ نہیں کون جیتا کون ہارا ، سوال یہ ہے کون باوقار کتنا تھا“ جس پر ہال میں بیٹھے ارکان نے انہیں داد دی۔
قومی اسمبلی
اسلام آباد (جاوید صدیق) شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے وزراءاور حکومتی ارکان کی تقریروں کے دوران ان پر فقرے چست کرنے اور ان پر ہوٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے جب وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کئے گئے منی بجٹ کی تعریف شروع کی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کو جس کا وہ 26 جولائی کے انتخابات سے قبل خود بھی حصہ تھے‘ ہدف تنقید بنانا شروع کیا تو عقبی بنچوں پر بیٹھی مسلم لیگ کی خواتین ارکان نے خسروبختیار پر خوب جملہ بازی کی۔ خواتین ارکان جس میں سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب‘ لاہور سے قومی اسمبلی کی مسلم لیگ (ن) کی رکن شائستہ پرویز ملک اور ان کے قریبی نشستوں پر بیٹھی ارکان نے انہیں مسلسل طنز اور تمسخر کا ہدف بنایا۔ جب وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پاکستانی عوام پر سرکلر ڈیبٹ بڑھا دیا تو لیگی ارکان نے ”لوٹا لوٹا“ اور ”اوئے اوئے“ کہنا شروع کر دیا جس سے خسرو بختیار کی تقریر بار بار منقطع ہوتی رہی۔ سپیکر اسد قیصر کو کئی مرتبہ مداخلت کر کے (ن) لیگی خواتین ارکان کو تنبیہ کرنا پڑی کہ وہ وزیر صاحب کی تقریر میں خلل نہ ڈالیں۔ خسرو بختیار مشرف دور میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ رہے۔ جب مسلم لیگ (ن) 2013 ءمیں اقتدار آئی تو انہوں نے (ن) لیگ جوائن کر لی اور 2018 ءکے عام انتخابات سے چند ہفتے پہلے جنوبی پنجاب کے دوسرے سرکردہ سیاستدانوں کے ساتھ انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی انہیں مسلم لیگ (ن) سے ناطہ توڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے اور وزیر منصوبہ بندی بننے کی قیمت یہ دینا پڑی کہ مسلسل مسلم لیگی اور دیگر ارکان کی طعنہ زنی کی زد میں رہے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اس صورتحال سے محظوظ ہوتے رہے۔ ان دنوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ پی پی پی نے سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جب سے زرداری صاحب پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگے ہیں اور جعلی اکا¶نٹس کھولنے کا معاملہ سامنے آیا ہے پی پی پی کی قیادت (ن) لیگ کے قریب ہونا شروع ہو گئی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ احتساب کی زد میں آنے کے بعد اب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اس لئے ان میں فاصلے مٹ رہے ہیں اور قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اگر یکجا ہوئیں تو تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قومی اسمبلی/ جملے بازی