باکمال لوگوں کی لاجواب سروس، پی آئی اے کے باکمال لوگ جعلی ڈگریوں کے حامل نکلے، آڈٹ حکام نے سپریم کورٹ میں قومی ائیر لائیز کی آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی. رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی ائیرلائيز کے 457 ملازمین اور افسران جعلی ڈگریوں کے حامل ہیں، جعلی ڈگریاں رکھنے والوں میں 16 پائلٹس، 33 ایئرہوسٹس اور 52 انجیئر بھی شامل ہیں۔ قومی ایئرلائن میں 67 افسران بھی جعلی ڈگریوں کے حامل نکلے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملازمین کی مستقلی کی پالیسی کا غلط استعمال ہوا، پی آئی اے میں بھرتیوں کیلئے کوئی میرٹ پالیسی نہیں، من پسند افراد کی بیرون ممالک تعیناتی سے ادارے کو نقصان پہنچا.خصوصی آڈٹ رپورٹ کے مطابق قومی ایئرلائن کو 360 ارب کا نقصان ہوا، فیول مینجمنٹ سے 460 ارب روپے بچائے جا سکتے تھے، سائبر نامی سافٹ ویئر کی خریداری سے 5.5 ارب کا نقصان ہوا، غیر ضروری مرمت اور سفارشی انجینئرز کے باعث 31 ارب کا نقصان پہنچا، ڈیڑھ ارب روپے مالیت کے سپیئر پارٹس غیر ضروری طور پر لیے گئے، غلط کمرشل فیصلوں کے باعث 8.5 ارب روپے کا نقصان ہوا، گزشتہ دس سال کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق دسمبر 2008 میں خسارہ 72 ارب تھا جو 2017 میں 360 ارب تک پہنچ گیا۔ 2009 میں پی آئی اے کے پاس 34 طیارے تھے،2017 میں طیارے کم ہو کر 12 راہ گئے، 2009 میں 5 اعشارہ 51 ملین مسافر پی آئی اے پر سفر کرتے تھے، 2017 میں مسافروں کی تعداد 5 اعشاریہ 32 ملین رہ گئی۔ پی آئی اے کا عالمی مارکیٹ شیئر 41 سے 22 فیصد پر آ گیا ،دس سال میں قومی ایئر لائین کا ڈومیسٹک مارکیٹ شیئر میں بھی 13 فیصد کمی ہوئی۔ آڈٹ حکام نے قومی ایئرلائن میں حکومت کی غیر ضروری مداخلت روکنے کی سفارش کر دی. رپورٹ میں ایوی ایشن پالیسی پر نظرثانی ، باہمی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکش اورگلف ایئرلائنز کیساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی سفارش بھی کی گئی ہے. رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ پی آئی اے میں تبدیلی کیلئے تجربہ کار افراد پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جائے، سی ای اوز اور ایم ڈی کی تعیناتی میرٹ پر کی جائے، ملازمین کی یونینز کی مداخلت کو فوری طور پر روکا جائے.رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کو کبھی کاروباری ادارہ سمجھ کر چلایا ہی نہیں گیا، ایئرلائن انتظامیہ میں موثر پالیسی سازی کا فقدان تھا، قومی ایئرلائن میں تمام فیصلے ایڈہاک ازم کی بنیاد پر ہوئے۔