علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست اور اخلاقیات

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ البتہ ان کے ابتدائی دور میں ان کا ایک خطاب سننے کا موقع میرے ایک دوست نے فراہم کیا، جو گوجرانوالا میں پرائیویٹ سکول کا مالک تھا۔ وہ علامہ صاحب سے متاثر ہوا اور لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں علامہ صاحب کے اعزاز میں تقریب منعقد کی۔ بس وہی ایک خطاب تھا جو میں نے بالمشافہ سنا۔ ان کے باقی خطابات ٹی وی کے مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر سنے۔ ان کا پہلا ہی خطاب سن کر میں متاثر نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے ملاقات کی کبھی خواہش نہیں ہوئی۔ بہت سے میرے احباب علامہ صاحب کے قریب تھے، اگر میں خواہش کرتا تو وہ ملاقات کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ دراصل میں زمانہ طالب علمی ہی سے مولانا غلام مرشد اور علامہ غلام احمد پرویز کے درس قرآن میں شرکت کرتا رہا ہوں اور میں ان دونوں حضرات کی قرآنی فکر سے متاثر رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ مولانا غلام مرشد جید عالم دین تھے۔ آپ 1935ء سے 1965ء تک بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب رہے۔ وہ دھڑلے، جرأت اور بے باکی سے قرآن کی آواز بلند کرتے۔ مولانا غلام مرشد عجز و انکساری کے پیکر اور بلند پایہ مقرر تھے۔ انہیں بادشاہی مسجد کی خطابت سے ایوب خان کے دور میں حکومت کے مسلک سے اختلاف کی بنا پر الگ کیا گیا۔ بعد ازاں وہ کشمیری بازار ، سنہری مسجد میں روزانہ نماز فجر کے بعد درس قرآن دیتے رہے ۔ میں اسی مسجد میں ان کا درس قرآن سنتا رہا۔ ان دنوں میں اسلامیہ کالج میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ نماز عیدین (عیدالفطر ۔ عیدالاضحی) بھی اپنے والد کے ہمراہ بادشاہی مسجد میں ادا کرتا۔ غلام احمد پرویز صاحب ہر اتوار کو اپنی اقامت گاہ (25 بی گلبرگ) میں درس قرآن دیتے رہے۔ وہیں میں ان کا درس قرآن سننے جایا کرتا۔ انتہائی اعلی ظرف انسان تھے۔ میں نے کئی بار دیکھا، لوگ ان کے سامنے ان کی فکر کی مخالفت کر رہے ہوتے۔ وہ مشتعل نہیں ہوتے تھے۔ ہر ایک کی بات تحمل سے سنتے اور اپنی قرآنی بصیرت کے مطابق جواب دیتے۔ 27 رمضان المبارک کو پرویز صاحب اپنی کوٹھی میں جشن نزول قرآن کی محفل سجاتے۔ اس محفل میں محدود احباب کو مدعو کیا جاتا۔ جشن نزول قرآن کی بعض محفلوں میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ علامہ طاہر القادری صاحب کا خطاب میں نے اس وقت سنا جب میں ایک اخبار میں ملازم تھا۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ مولانا غلام مرشد اور علامہ غلام احمد پرویز کے درس قرآن سننے کا موقع مجھے طالب علمی کے زمانے سے ملا۔ اس لیے علامہ صاحب کے خطاب نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ علامہ صاحب کے بارے میں تھوڑا بہت جو Soft Corner (نرم گوشہ) رکھتا تھا وہ سعید آسی صاحب نے علامہ صاحب کے بارے میں اپنے کالم کی دو قسطوں میں ختم کر دیا۔ ان کے دو قسطوں والے کالم کی سرخی تھی ’’میں علامہ صاحب کے لیے دعا گو ہوں‘‘ علامہ صاحب نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو آسی صاحب کے یہ دو قسطوں کے کالم اسی حوالے سے تھے۔ سعید آسی کو علامہ صاحب کی قربت اور مصاحبت کے کافی مواقع ملے۔ آسی صاحب نے 17ستمبر کے اپنے کالم میں لکھا ’’1986ء میں جب میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ علامہ طاہر القادری نے دھماکہ کر دیا۔ شریف فیملی پر الزامات کا طومار باندھا، اپنے گھر پر فائرنگ کرنے کے الزامات لگائے۔ گھر کی دیواروں پر خون کے چھینٹے بھی دکھا دئیے اور ان کے خلاف پرچہ کٹانے چل نکلے۔ غالباََ انہیں کسی نے پٹی پڑھائی ہو گی کہ سٹنگ وزیراعلیٰ کے خلاف پریس کانفرنس کر کے الزمات لگاؤ گے تو آپ کی سیاست کا اچھا آغاز ہو جائے گا۔ سو انہوں نے یہ معرکہ انجام دے ڈالا۔ انکوائری علامہ صاحب کے لیے بہت تلخ ثابت ہوئی۔ سارے حقائق ان کے خلاف گواہی بن گئے۔ خون کے چھینٹے بھی کسی جانور کے خون کے چھینٹے ثابت ہوئے اور فاضل جج نے اپنی رپورٹ میں علامہ صاحب کے کردار اور ان کی اخلاقیات کے حوالے سے مایوسی اور افسوس کا اظہار کیا۔ اسی واقعے کو مظفر وارثی نے اپنی خود نوشت ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ میں یوں بیان کیا ہے۔ ’’ایک رات علامہ طاہر القادری کے دولت کدے پر فائرنگ ہوئی۔ ہم صبح صبح دوڑے گئے۔ پولیس افسران اور شہباز شریف صاحب نے جائے واردات کا معائنہ کیا، دو کالے بکروں کا صدقہ دیا گیا۔ اس واقعے کا مرکزی کردار ان کا اپنا سالا قدرت اللہ تھا۔ جس نے برآمدے میںکھڑے ہو کر خوب گولیاں چلائی تھیں۔ پڑوس کے باتھ روم کی چھت پر جو خون تھا وہ تحقیق کرنے پر کسی جانور کا نکلا تھا۔ حضرت صاحب پنجاب کی حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے عدالت چلے گئے۔ عدالت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ جھنگ کی ایک ادنیٰ فیملی کا سپوت، محسن کش، جھوٹا، شہرت کا بھوکا، دولت کا پجاری اور جانے کیا کیا نکلا‘‘ مظفر وارثی نے محسن کش کی بات کی۔ اپنی خود نوشت میںانہوں نے یہ بھی لکھا کہ ’’نواز شریف کو نشانہ تضحیک بنایا جا رہا تھا جس سے علامہ صاحب نے بہنوں کے نام پلاٹ الاٹ کرائے تھے۔ سالے کو نائب تحصیلدار اور بھانجے کو اے ایس آئی بھرتی کرایا گیا تھا۔ وہ نواز شریف جس کے باپ سے رانا جاوید القادری نے نقد سولہ لاکھ روپے لا کر حضرت صاحب کے سامنے ڈھیر کر دئیے تھے۔ میاں شریف شادمان سے انہیں اتفاق مسجد لے گئے اور مسجد سے آسمان پر جا بٹھایا۔ گاڑی دی، مکان دیا، چالیس طالب علموں کی اکیڈمی کا سارا خرچ برداشت کرتے۔ پیر علاؤالدین گیلانی کی آمد پر اپنی کوٹھی پر میاں شریف کے تین لاکھ روپے خرچ کرا دئیے۔ کالم کا اختتام آسی صاحب کے ان الفاظ میں ’’علامہ صاحب کیلئے میں دعا گو ہوں‘‘ پر کرتا ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...