سانحہ چونیاں کے ملزم سہیل شہزاد کو پولیس نے تحقیقات کے دوران انتہائی مہارت سے گرفتار کیا۔
چونیاں میں چار بچوں کا زیادتی کے بعد قتل پولیس کے لیے معمہ بن چکا تھا جس کے بعد بلآخر سخت محنت کے بعد ملزم کو ٹریس کر لیا گیا۔
گرفتاری کیلئے پولیس کی پلاننگ
پولیس کے مطابق ملزم کی گرفتاری کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور ملزم کا سراغ لگانے کےلیے ہر طریقہ استعمال کیا۔
پولیس کے مطابق اہلکاروں نے بھیس بدل کر فرائض انجام دیے اور گلی گلی پاپڑ، پکوڑے، چپس، پھل اور قلفیاں فروخت کیں، اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں نے غبارے، سگریٹ فروخت کیے اور رکشہ بھی چلایا۔
پولیس نے مزید بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے لیڈیز پولیس نے عام خواتین کی طرح مارکیٹوں میں فرائض انجام دیے۔
تفصیلات کے مطابق چونیاں میں چار بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کی گرفتاری کے بعد کیس میں خفیہ طور پر کام کرنے والے اہلکار بھی منظر عام پر آ گئے ہیں۔
پولیس نے سانحہ چونیاں کیس ٹریس کرنے کے لئے وردیاں اتاریں اور انڈر کور کام کیا۔ پولیس اہلکاروں نے پاپڑ، پکوڑے، سموسے، چپس، پھل اور قلفیاں، غبارے اور سگریٹ فروخت کئے جبکہ ایک چنگ چی رکشا بھی چلاتا رہا۔چونیاں کیس کو حل کرنے کے کیے لیڈی پولیس نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ خواتین اہلکار پولیس کے قطرے پلانے اور بہبود آبادی کی ٹیم بن کر گھر گھر سے ملزم کی تفصیلات اکٹھی کرتی رہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوع پر ملزم کے جوتوں کے نشانات نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ ملزم یہی ہے کیونکہ ملزم سہیل شہزاد نے گرفتاری کے وقت بھی وہی جوتے پہن رکھے تھے۔واقعے کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر سہیل حبیب تاجک نے بتایا کہ ملزم کو تلاش کرنا انتہائی مشکل کام تھا، اس لیے کئی اہلکاروں کو اپنا بھیس بدل کر علاقے کی گلیوں میں گھومنا پڑا۔ پولیس نے تحقیقات کے لیے مردم شماری کے ڈیٹا کو استعمال کیا جس کی بنیاد پر تفتیش اور تحقیق کا کام شروع کیا گیا۔تفتیشی ٹیموں نے گھر گھر جا کر ان افراد کی حتمی فہرست بنائی جن کا ڈی این اے کیا گیا۔ یوں کل 1700 نمونے حاصل کرکے لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھجوائے گئے۔ ان میں سے ملزم سہیل شہزادہ کا 1471 واں نمبر تھا جس پر ڈی این اے کا نمونہ مکمل طور پر میچ ہوا۔
کچھ عرصہ قبل بھی ملزم سہیل شہزاد گرفتار ہوا اور اسے پانچ سال کی سزا ہوئی تھی اور ڈیڑھ سال کی سزا کاٹ کر ملزم جیل سے باہر آ گیا تھا۔
رکشے کے ٹائروں کے نشان سے ملزم کا سراغ لگایا
تفتیشی افسران کے مطابق مقتول بچوں کی باقیات والی جگہ سے رکشے کے ٹائروں کے نشانات ملے تھے جس پر چونیاں میں 248 رکشہ ڈرائیوروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، انہی میں ملزم سہیل شہزاد بھی تھا جو کچھ عرصہ قبل کرائے پر رکشہ لے کر چلاتا رہا۔
سفاک ملزم سہیل شہزاد کو 29 ستمبر کو ڈی این اے کے لیے تھانے بلایا گیا جس پر ملزم نے لاہور فرار ہونے کی کوشش کی اور ایک مسافر وین میں سوار ہو گیا، پولیس اہلکاروں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور وین سے اتار کر تھانے لے آئے۔
ڈی این اے سیمپل لینے بعد ملزم کو شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا گیا اور 2 دن بعد ڈی این اے مثبت آنے پر ملزم سہیل شہزاد کو گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف 8 سال پہلے بھی چونیاں میں ہی بچے سے زیادتی کا مقدمہ درج ہوا تھا جس پر اسے سزا بھی ہوئی تھی۔
ملزم جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
پولیس نے ملزم سہیل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جہاں پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے بچوں کو اغوا کیا اور ان کے ساتھ بدفعلی کی، بدفعلی کے بعد بچے کو قتل کیا، ملزم سہیل کا ڈی این اے بچے فیضان کے ساتھ میچ ہوگیا، دیگر کیسز کی ڈی این اے رپورٹ آئے گی تو پھر وہ کیس الگ بنائیں گے۔
پولیس نے بتایا کہ 1668 افراد کا ڈی این اے لیا گیا لیکن ملزم سہیل کا ڈی این اے میچ ہوا۔
پولیس نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ملزم کو 15 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
یاد رہے کہ قصور کی تحصیل چونیاں میں ڈھائی ماہ کے دوران 4 بچوں کو اغواء کیا گیا جن میں فیضان، علی حسنین، سلمان اور 12 سالہ عمران شامل ہیں، ان کی لاشیں جھاڑیوں سے ملی تھیں جب کہ بچوں سے زیادتی کی بھی تصدیق ہوئی تھی۔
اس واقعے کے بعد چونیاں شہر میں عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور تھانے پر حملہ کیا گیا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں کے اغواء، زیادتی اور پھر قتل کے واقعے کی تحقیقات کیلئے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) تشکیل دی تھی۔