لندن (بی بی سی) غلام عائشہ کو اپنا بچپن کچھ کچھ یاد ہے، وہ بچپن جب اْن کا نام داپھیا بائی ہوا کرتا تھا۔ چولستان کے علاقے میں ریت کے ٹیلوں میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ اپنے والدین کو قریب ہی کام کاج کرتے دیکھا کرتی تھیں۔ یہ تقسیمِ ہند سے پہلے کی بات ہے۔ انھیں وہ سفر بھی یاد ہے جب وہ کئی میل دور بکنیر کے علاقے مورخانہ میں اپنے ماموں کی شادی کی تقریب میں شریک ہونے گئیں تھیں۔ پھر کچھ ہی عرصہ بعد داپھیا بائی کے والدین نے اْن کی بھی شادی کر دی۔ رخصتی کے وقت اْن کی عمر لگ بھگ 12 برس تھی۔ ضلع بہاولپور کے علاقے احمد پور میں گنجیانوالا کھو چار چک سے اْن کے والدین نے جہیز دے کر جب انھیں اْن کے شوہر ہیملہ رام کے ساتھ خیرپور ٹامیوالی کے لیے رخصت کیا تھا تو انھیں معلوم نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ انھیں دیکھ رہے تھے۔ خیرپور اپنے سسرال پہنچے ابھی داپھیا بائی کو تین، چار روز ہی گزرے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم کا باقاعدہ اعلان ہو گیا۔ وہ بتاتی ہیں اس اعلان کے ساتھ ہی ایک بھگدڑ سی مچ گئی، لوٹ مار شروع ہوئی تو ان کے خاندان کی خواتین نے اپنے زیورات اْتار کر چھپا لیے تاکہ وہ پہچانی نہ جا سکیں اور کوئی انھیں لوٹ نہ لے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ہر طرف قتل و غارت اور مار دھاڑ شروع ہوئی اور لوگ جانیں بچا کر بھاگنے لگے۔ کئی دیگر ہندو خاندانوں کی طرح اْن کے سسرال والوں نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ جس روز انھیں نکلنا تھا بخشندے خان کانجو نامی ایک مقامی زمیندار نے یہ کہہ کر داپھیا بائی کو روک لیا کہ وہ اْن کے گھر پر کام کاج میں ہاتھ بٹا کر شام تک فارغ ہو جائیں گی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں چھوٹی تھی، لڑکیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے شام سے رات ہو گئی۔ میرے سسرال والے چلے گئے۔ خدا جانے وہ کہاں گئے، مجھے نہیں معلوم۔ بعد میں مجھے کچھ خواتین نے بتایا کہ انھیں وہاں سے جلدی نکال دیا گیا تھا۔‘اس صورتحال میں اب وہ بخشندے خان کے رحم و کرم پر تھیں۔ بائی کا دعویٰ ہے کہ زمیندار نے دو بیلوں کے عوض انھیں غلام رسول نامی شخص کے خاندان کو فروخت کر دیا۔ داپھیا بائی کی زندگی یکسر بدل چکی تھی۔ انھیں بالکل نہیں معلوم تھا کہ اْدھر گنجیانوالہ کھو میں ان کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جلد ہی اس کی شادی غلام رسول کے بیٹے احمد بخش سے کر دی گئی۔ غلام عائشہ کہتی ہیں ان کے نئے خاندان نے نہایت محبت کے ساتھ انھیں پالا۔ احمد بخش سے شادی کے بعد ان کے ہاں سات بچوں کی ولادت ہوئی جن میں تین بیٹے تھے۔ جب ان کے دو بچے ہو چکے تو انھوں نے اپنے حقیقی خاندان کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ان کے شوہر احمد بخش نے بھی اس کام میں اْن کا ساتھ دیا۔ اب 73 برس کی تلاش کے بعد انھیں بالآخر تقسیم کے وقت بچھڑے اپنے خاندان کا پتہ مل گیا ہے۔ حال ہی میں ویڈیو کال پر اْن کی انڈیا میں رہائش پذیر اپنے ایک بھتیجے کھجاری لال اور ایک بھتیجے کے بیٹے سے بات ہوئی ہے۔ انھوں نے موبائل فون کی سکرین کو بوسے دیے اور روتے ہوئے اپنے بھتیجے کو بتایا کہ ’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میرے بھائی میرے پاس آ گئے ہیں۔ میں نے تم لوگوں کو دیکھنے کے انتظار میں ساری عمر رو کر گزاری ہے۔‘ اسکا خاندان انڈین پنجاب کے ایک علاقے بکنیر میں مورخانہ کے علاقے میں آباد تھا اور کھیتی باڑی کرتا تھا۔ یہ وہی مورخانہ ہے جہاں تقسیم سے قبل داپھیا بائی اپنے ماموں کی شادی میں گئی تھیں۔ یہ میلسی سے تقریباً 200 سے زائد کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔