اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صرف الزام پر کسی وزیر کو استعفی دینے کا نہیں کہہ سکتے۔ وفاقی وزیر خسرو بختیار کو بطور وزیر کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ درخواست گزار کہتا ہے کہ وزیر کی اپنی شوگر ملیں ہیں۔ جس پر درخواست گزار احسن عابد نے کہا پہلی انکوائری میں ایف آئی اے کی رپورٹ دیکھنی ہو گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ نے کہا کہ خسرو بختیار وفاقی وزیر ہونے کے ساتھ شوگر ملز کے مالک بھی ہیں۔ درخواست کے مطابق شوگر ملز پر نیب انکوائری چل رہی ہے۔ کون سا قانون کہتا ہے کہ وفاقی وزیر پر انکوائری شروع ہو جائے تو اسے مستعفی ہونا چاہئے؟۔ آپ نیب قانون یا آئین کے حوالے سے یہ بات ثابت کر دیں کہ وفاقی وزیر کا انکوائری کی صورت میں مستعفی ہونا ضروری ہے۔ درخواست گزار نے کہا روپا ایکٹ کہتا ہے کہ پبلک آفس ہولڈر امین ہونا چاہئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کے کیس میں ابھی تک کوئی جان نظر نہیں آ رہی، آپ نے مثال دی ہے کہ دوسرے ملکوں میں ریلوے حادثے پر وزیر مستعفی ہو جاتے ہیں، یہ اخلاقی اقدار کی بات ہے جو جمہوری نظام میں مختلف ہوتے ہیں، عدالت کو بتائیں انکوائری شروع ہونے پر ہمارے ملک میں کتنے وزیر آج تک مستعفی ہوئے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمشن اگر فارن فنڈنگ کیس کی انکوائری کر رہا ہے تو کیا وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں؟۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جمہوری ملکوں میں کچھ اقدار تو ہوتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیا عدالت صرف الزام کی بنیاد پر کسی وفاقی وزیر کو استعفی کا کہہ سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت بالکل بھی ایسے کسی کو استعفی کا نہیں کہہ سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ کیس کی تیاری کر کے آئیں ورنہ عوامی وقت ضائع کرنے پر آپکو جرمانہ کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ جس کے بعد عدالت نے درخواست گزار کو تیاری کی مہلت دیتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
الزام پر وزیر کو استعفی کا نہیں کہہ سکتے، کیا انکوائری پر وزیراعظم عہدہ چھوڑ دیں : سپریم کورٹ
Oct 02, 2021