تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
معزز قائرین یکم اکتوبر کے نوائے وقت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر میرا تجزیہ حکمرانوں کو عوام کی آواز پہنچانا تھا لیکن پٹرولیم کی قیمتوں میں موازنہ رہ گیا تھا جس نے مجھے پٹرولیم کی قیمتوں کا تجزیہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے موازنے کا تجزیہ آپ کی آگاہی کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ حکومت کا اس ضمن میں نوٹیفکیشن دیکھا جس سے علم ہوا کہ ایک لٹر پیٹرول کی ایکس ریفائنری پرائس 102.77 روپے ہے، آئی ایف ای ایم (ان لینڈ فریٹ ایکوالائزیشن مارجن ) کے 3.88روپے، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا منافع 2.97روپے، ڈیلرز کا کمشن 3.91روپے، پیٹرولیم لیوی 5.62 روپے اور سیلز ٹیکس 8.15روپے شامل ہے۔ اگر ان کا ٹوٹل کیا جائے تو 127.30روپے بنتا ہے۔ حکومت نے یہ اضافہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث کیا کیونکہ اب ایک لیٹر پٹرول پر حکومت 13.77روپے ٹیکس لے رہی ہے جبکہ یکم ستمبر کو حکومت ایک لٹر پٹرول پر 17.38روپے ٹیکس وصول کر رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ مہینے کے پہلے 15 دن حکومت نے اپنا ریونیو حاصل کرنے کے لئے عوام سے پٹرول پر زائد ٹیکس وصولی کی اور جب عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو ٹیکس میں کمی کر کے پٹرول کی قیمت بڑھادی دونوں صورتوں میں عوام کو رگڑا لگا ہے۔ پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں 10سے15 فیصد تک اضافہ ہو گا جبکہ گراں فروشی اس کے علاوہ ہو گی۔ 30ستمبر کو ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت فروخت 173.50روپے تک پہنچ گئی جبکہ انٹر بنک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 170.66روپے تک پہنچ گئی تھی۔ واضح رہے کہ 28ستمبر 2018 کو ڈالر کی انٹر بینک قدر 124.25روپے تھی۔ خطے میں افغانستان کو چھوڑ کر کسی ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی نہیں ہوئی تو پاکستانی روپے کی قدر میں اتنی زیادہ کمی کیوں ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کو اس معاملے کی انکوائری کرانی چاہئے۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنا سرمایہ کاروبار کی بجائے ڈالر میں منتقل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی بلیک بھی شروع ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت ڈالر کی سپلائی اسکی ڈیمانڈ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے بھی ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ 28ستمبر 2018 سے30ستمبر 2021تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 37.35فیصد کمی ہوئی ہے۔ سرکاری طور پر تسلیم کہا گیا ہے کہ ملک میں اس وقت بیروزگاری کی شرح 16 فیصد ہے۔ اس صورتحال میں پٹرولیم مصنوعات، ڈالر، گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لوگوں کی زندگیوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ لوگ انتخابات میں اپنا ردعمل کیا دیں گے یہ تو بعد کی بات ہے پہلے معاشرے میں برائیاں بڑھیں گی، رشوت میں اضافہ ہو گا، چوری ڈکیتی میں اضافہ ہو گا۔ معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو گا۔ حکومت کو عوام کو ریلیف دینے کے لئے موثر حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 1100 روپے اور غریب عوام کے لئے10 کلو کا تھیلا430روپے مقرر کرنا کافی نہیں۔ چینی دالوں اور گھی کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ غریبوں کو یہ اشیاء بھی ٹارگٹ سبسڈی کے تحت ارزاں نرخوں پر ملنی چاہئے۔ میں حکومت کو مسلسل کہہ رہا ہوں کہ کھانے پینے کی اشیاء پر عائد ٹیکسز ختم کئے جائیں۔ یہی عوام کو مہنگائی سے بچانے کا فوری حل ہے جبکہ عوام کو مہنگائی سے مستقل طور پر پر بچانا ہے تو برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کی برآمدات سے گزشتہ مالی سال 25 ارب 30کروڑ 40 لاکھ ڈالر حاصل ہوئے۔ رواں مالی سال عالمی سطح پر پر قیمتوں میں اضافہ کا رجحان ہے اس لئے حکومت کو ایسی حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے کہ کم از کم ہماری برآمدات میں 35 سے 40 فیصد اضافہ ہو اور ہر سال برآمدات میں اضافے کی گروتھ اسی تناسب سے برقرار رہے۔ یہی روزگار بڑھانے اور آمدنیوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔