یکم اکتوبر 1949 کو، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کے جنرل سکریٹری ماؤ زے دونگ نے جدید چین کی آزادی کا اعلان کیا جسے عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کا نام دیا گیا۔شروع سے ہی، نوزائیدہ عوامی جمہوریہ چین مسائل سے گھری ہوئی تھی۔ ذلت اور غلامی کی ایک صدی کا سامنا کرنے کے بعد، جاپانی سامراج کے خلاف جدوجہد اور چیانگ کائی شیک کی چینی نیشنلسٹ پارٹی {کوومینٹانگ کے خلاف کئی عشروں کی جدوجہد کے باعث چین نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ کوومینٹانگ کو سرزمین سے نکال دیا گیا لیکن انہوں نے تائیوان میں پناہ لے کرجمہوریہ چین (آر او سی) قائم کی۔ پسپا ہوتے ہوئے، کوومینٹانگ نے چین کے خزانے خالی کر دیے۔ مغرب کی ستم ظریفی یہ کہ، کمیونزم کے عروج سے خوفزدہ ہو کر انہوں نے، 543 ملین چینی آبادی والے پی آر سی کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بجائے تائیوان کے چھوٹے جزیرے کو جمہوریہ چین کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا، یہاں تک کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت بھی دے دی-چیئرمین ماؤ کے سامنے سب سے بڑا کام لاکھوں لوگوں کو خوراک مہیا کرنا اورجنگ سے تھکے ہوئے چینیوں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد کرنا تھا۔ کوئی بین الاقوامی حمایت آنے والی نہیں تھی۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے تھا جنہوں نے نہ صرف پی آر سی کو تسلیم کیا، سفارتی تعلقات قائم کیے بلکہ چین کے لیے بیرونی دنیا کے لیے ایک کھڑکی کے طور پر بھی کام کیا۔
پچیس سالوں تک پاکستان نے نہ صرف مغرب کی طرف سے پی آر سی کواسکا حقیقی مقام دلانے کی خاطر اپنی آواز بلند کی بلکہ ٹیکنالوجی اور دیگر سہولیات بھی فراہم کیں جو مغرب نے چینیوں کے لیے ممنوع قرار دی تھیں- 2021 امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے بیجنگ کے خفیہ دورے کی پچاسویں سالگرہ بھی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ 1971 میں پاکستان اپنے مشرقی بازو میں شورش کے خلاف جنگ میں الجھا ہوا تھا ، اسلام آباد نے امریکی مشیر کے انتہائی خفیہ دورے کا اہتمام کیا۔ پی آئی اے کی ایک خصوصی پرواز مسٹر کسنجر اور مٹھی بھر چینی سفارت کاروں اور ترجمانوں کو لے کر بیجنگ گئی، جہاں انہوں نے وزیر اعظم چؤ اینلائی اور چیئرمین ماؤ زے دونگ سے ملاقات کی۔ اس طرح، امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دورہ چین کی بنیاد رکھی گئی، جو پی آر سی کے ساتھ سفارتی تعلقات قایم کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کی مستقل نشست کی بحالی کا پیش خیمہ تھا۔چینی قیادت نے ان ناگفتہ سالوں میں پاکستان کی مدد کو کبھی نہیں بھلایا- جب بھی چین کو کسی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان نے مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ، چین اور پاکستان "آئرن برادرز" ہیں اور انتہائی مستحکم اسٹریٹجک شراکت داری رکھتے ہیں۔دینگ ڑیاؤ پنگ اور ان کی انقلابی معاشی اصلاحات کے ذریعہ چین کو ایک غیر ترقی یافتہ ملک سے معاشی طاقتاوراستحکام کی جانب لے جایا گیا- بعد کی قیادتوں کی طرف سیترقی کیاصلاحاتکا تنقیدی تجزیہ کرنا، شرح نمو نظرثانی اور غلطیوں کی اصلاح چین کی ترقی کے رازوں میں سے ہے- 2021سی پی سی کی بنیاد کی صد سالہ سنگ میل بھی ہے، جب اس کا پہلا ہدف مطلق غربت کا خاتمہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ راقم نے 1974 سے چین کا دورہ شروع کیا اور اس کی ترقی کا عینی شاہد ہے۔ میرے پورے چین کے دوروں کے دوران، بشمول دیہی علاقے، مجھے غربت کے بتدریج خاتمے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ مشرقی صوبوں کے معاشی عروج نے ان کے اور کم خوشحال مغربی علاقے، شہری آبادی اور دیہی علاقوں کے درمیان ایک خلا چھوڑا۔ مغربی اور مشرقی علاقوں کے درمیان تفاوت کو زیادہ تر وسائل کے اشتراک سے ختم کیا گیا ہے ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) نے اس عمل کو مزید تقویت دی۔مغربی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بیجنگ نے پچھلے پانچ سالوں میں تقریبا 700 بلین ڈالر قرضے اور گرانٹ غربت کیخاتمے کے لیے مختص کیے ہیں -سالانہ اقتصادی پیداوار کا تقریبا ایک فیصد قومی اداروں جیسیبجلی کی ترسیل کی بڑی کمپنیاسٹیٹ گرڈ کے بڑے عطیات اس میں شاملہیں، جس نے 120 بلین ڈالر دیہی بجلی کی اپ گریڈ کی مد میں خرچ کیے اور 7000 سے زائد ملازمین کو غربت کے خاتمے کے منصوبوں پر کام کرنے کے لیے تفویض کیا۔ مغرب کا خیال ہے کہ چین مسلسل اس رفتار کو برقرار نہیں رکھ سکے گا-اگر چینی معیشت غربت کے خاتمے کے طور پر ایک عظیم مقصد کے حصول کے لیے فنڈز اور وسائل کی اس قسم کی تقسیم کو برقرار رکھ سکتی ہے، تومغرب کو کیا اعتراض؟تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چینی حکومت نے دور دراز پہاڑی علاقوںکے کسانوں کو مفت مویشی اور فنڈز کی پیشکش کی جس سے رہائشی بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ سڑکیں ہموار اور شمسی پینلوں سے روشن کی گئی ہیں، ملازمتیں پیدا کرنے اور بہتر رہائش کی تعمیر کے لیے دی جانے والی سبسڈیز جبکہ حکومتی عہدیدار ہفتہ وار رہائشیوں سے ان کی پیش رفت چیک کرنے کے لیے جاتے ہیں۔اس مہم نے 2020 میں نئی آزمایش کا سامنا کیا کیونکہ ملک کورونا وائرس وبائی مرض کی لپیٹ میں تھا۔ مشکلات کے درمیان موقعفراہم ہوا۔ دیہی علاقوں سمیت تمام جگہوں پر سہولیات قائم کی گئی، بشمول طبی سامان تیار کرنے کے لیے خاص طور پر آسان اشیائ جیسے چہرے کے ماسک اور باڈی سوٹ نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا میں وبائی امراض سے بچنے کے لیے تیار کرنے کا موقع تھا۔جو لوگ غربت کی لکیر سے نیچے تھے، انہیں اور مراعات کے طور پر سبسڈی فراہم کی گئی جس کیکم آمدنی والے کارکنوں کو ان کی کوششوں کے لیے بونس دیا نتیجے کے طور پر، 700 ملین افراد کو صرف غربت سے نہیں نکالا گیا ہے، بلکہ ایک بلند معیار زندگی کے لیے جہاں ان کی اولاد کو اعلی تعلیم کے اداروں میں داخل کیا جاتا ہے۔
اور وہ خود مہذب زندگی گزارسکیں، شہری سہولیات اور اعلی معیار زندگی فراہم کی گئی-سائنس، ٹیکنالوجی، دفاعی پیداوار، خلائی سفر، طبی تحقیق میں پی آر سی کے کارنامے قابل ذکر ہیں۔ہلاکتوں کی تعداد کو کم سے کم رکھنے کے لیے عالمی وبائی مرض کورونا کا جرات مندانہ مقابلہ، ایک طاقتور اینٹی کوویڈ 19 ویکسین تیار کرنا اور اپنے تجربات کو دنیا کے ساتھ بانٹنا نیز کم ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین کی مفت تقسیم ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ شاباش چین، 72ویں سالگرہ مبارک ہو-