مستقبل کے سماج دشمن عناصر

پاکستان کے قابل ترین بچوںکا تابناک مستقبل تاریک کیا جاچکا ہے۔اللہ نہ کرے یہ ذہین بچے اس ظلم کے بعد بدلے کی طرف راغب ہوجائیں کہ بلوچستان کے ضلع آواران کا ڈاکٹر اللہ نذر بھی میٹرک اور ایف ایس سی کا ٹاپر بچہ تھا ۔ سسٹم کی خرابی نے اسے بغاوت کی طرف دھکیل دیا اورآج مستقبل کا وہ ڈاکٹر پاکستان کا سب سے خطرناک دہشتگرد ہے ۔ اس نے اپنے ساتھ بہت سے اعلی تعلیم یافتہ بھی شامل کرلیے ہیں ۔۔یہ قطعی طو رپر محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ گزشتہ کئی دنوں سے میٹرک میں 1100 میں سے 1030 سے 1088  نمبر لینے والے انتہائی لائق، قابل، ذہین و فطین بچے ایم کیٹ کے امتحان میں فیل قرار دے دئیے جائیں ۔
بدھ 29 ستمبر 2021 ء کو لاہور کے علاقے برکت مارکیٹ سے ملحقہ ایک معروف شادی ہال میں ’’ایم کیٹ‘‘ کا امتحان دینے والے بچّے جمع تھے۔اسی دوران ممتحن ہال میں داخل ہوکر تقریر فرمانے لگ جاتے ہیں کہ آج کل بچے پڑھتے نہیں ،کورونا نے بچوںکو برباد کرکے رکھ دیا ہے ، بغیر تیاری کیے آجاتے ہیں اور اعتراض پاکستان میڈیکل کمیشن کے امتحانی نظام پر کرتے ہیں ۔ ایک بچہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر ہال میں چیختے ہوئے کہنے لگا ۔’’ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم نے پڑھا نہیں ۔میرے میٹرک میں 1061 نمبر تھے اور ایف ایس سی کے رزلٹ میں بھی ان شاء اللہ میرے نمبر 95 فیصد سے زائد ہوں گے ۔ پھر وہ بچہ مزید کہتا ہے آپکے پاس ٹوٹل 9 ہزار سوالات ہیں ۔ وہی سوالات دہرا دہرا کر 210 سوال فی پیپر کے حساب سے آپ بچوں کا انٹری ٹیسٹ لے رہے ہیں۔ مجھے وہ 9 ہزار MCQs زبانی یاد ہیں۔ یہ جو آپ نے ہال میں سے چند بچے اُٹھا کر اس شادی ہال کے برائیڈل روم میں علیٰحدہ بٹھائے ہیں وہ کس لئے ؟ جبکہ ہال میں تو کرسیاں خالی پڑی ہیں ۔ ممتحن کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا ۔ ساڑھے پانچ بجے پیپر ختم ہوتا ہے اور ساڑھے سات بجے آن لائن رزلٹ میں وہ بچہ بھی فیل قرار دے دیا جاتا ہے۔’’ قابیل نے ہابیل کا قتل کیا اور رہتی دنیا تک جتنے بھی قتل ہوں گے ، انکے گناہ کا کچھ نہ کچھ حصہ قابیل کے کھاتے میں خود بخود جاتا رہے گا ۔ یہ انٹری ٹیسٹ کا شوشہ میاں شہباز شریف نے چھوڑا تھا انکے اکاؤنٹ میں بھی ہزاروںمظالم کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کسی کو اندازہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ لاگو کیے جانے سے لیکر آج تک کتنے بچے خودکشی کرچکے ہیں اور کتنے ذہنی طور پر مفلوج ہیں ۔ 
 کچھ بھی نہیں بدلا۔امتحانی پرچوں کی چوری اسی طرح جاری ہے سنٹر اسی طر ح بک رہے ہیں۔کسی زمانے میں لاہور، سرگودھا اور ملتان بورڈزمیں ’’کالا پانی ‘‘ کی اصطلاحیں عام تھیں ۔ وضاحت کردوں کہ کالا پانی کیا تھا کیونکہ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے وہ اسی کالے پانی سے پاک ہوکر وہاں تک پہنچے تھے ۔ ہوتا یہ تھا کہ امتحانی عملے کی جن بچوں کے ساتھ ڈیل ہوجاتی تھی، پرچے کے پہلے دس منٹ میںامتحانی عملہ ان بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر یہ کہہ کر اُٹھا تا تھا کہ نقل کررہے ہو ’’چلو اُدھر کالا پانی۔‘‘ پھر ایک علیحدہ کمرے میں سارے ڈیل شدہ بچوں کو نوٹس اور کتابوں سے ڈائریکٹ نقل کرکے پیپر حل کرنے کی سہولت میسر ہوجاتی۔کالے پانی کی یہ ٹرمینالوجی ان سنٹرز میں نہ تھی جو پورے کے پورے بکتے تھے ۔ اب بھی کوئی ریکارڈ چیک کرلے تو آج سے 35 سال قبل ملتان بورڈ کے تین سنٹرز لگاتار تین سال بیچے گئے۔ ان میں چیچہ وطنی ، بوریوالہ اور لیّہ شامل تھے ۔ لاہور بورڈ کے اسی طرح شیخوپورہ ، پتوکی ، قصوراور چونیاں کے امتحانی سنٹرز بکے تھے ۔
دور بدل گیا اورقرطاس سے معاملات سکرین پر شفٹ ہوگئے مگر گندے اور آلودہ عناصر اُسی کروفرسے سسٹم کا حصّہ ہیں کہ کرپشن اب ہماری سوچ اور رگ و پے میں بس چکی ہے ۔ پچھلے سال تک ایم کیٹ کے بچوں کو ایک ’’کی ‘‘ ملتی تھی جس میں انکے تمام سوالات کے درست جوابات ہوتے تھے اور پیپر دینے کے فوری بعد ہی بچہ اپنا حساب لگالیتا تھا کہ اس نے کتنے نمبر حاصل کیے ہیں مگر اس سال کسی بچے کو بھی ’’کی‘‘ نہیں دی گئی۔ گزشتہ سال تک انٹری ٹیسٹ میں شامل ہونے والا کوئی بچہ فیل نہیں ہوتا تھا بلکہ حاصل کردہ نمبروں کی بنیا دپر میرٹ بنتا تھا ۔زیادہ نمبروں والے سرکاری اداروں میں اور کم نمبروں والے پرائیویٹ اداروں میں داخل ہوجاتے تھے۔ کہا یہ جارہا ہے اب انٹری ٹیسٹ میں فیل ہونے والے طلبہ وطالبات کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے اپلائی ہی نہیں کرسکتے ۔گویا ان کی دو سال کی محنت پر پانی پھر گیا اور ان کی تعلیمی حیثیت تادمِ تحریر میٹرک ہی ہے ۔
سنا ہے کہ ابھی ایک اور ظالمانہ فیصلہ لاگو کیا جارہا ہے ۔ جس کے مطابق گزشتہ سال کے ایم کیٹ کے رزلٹ کی بنیاد پر جو بچے میڈیکل کالجوں میں داخلے سے محروم رہ گئے تھے اس سال وہ دوبارہ اپلائی کرسکیں گے کیونکہ رواں سال تو بچوں کی اکثریت فیل قرار دی جا رہی ہے ۔ یہ کون ملک دشمن عناصر ہیں جو بچوں کی محنت پر پانی پھیر کر مستقبل کے سماج دشمن تیار کررہے ہیں ۔
میں نے دو قومی اخبارات میں کئی سال ایجوکیشن رپورٹنگ کی، جو معلومات میرے پاس ہیں عام قاری ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میں نے تعلیمی حوالوں سے بچّوں کے ساتھ بہت سے ظلم ہوتے دیکھے مگر موجودہ ظلم ایسا ہے کہ اس کا حصّہ بننے والوں کا انجام فرعون سے کم نہ ہوگا ۔ کہیں نہ کہیں تو بہت بڑی ڈیلز ہورہی ہیں اور اس ظلم کے پیچھے جہاںدرجنوں بااثر ہاتھ ہیں وہاں پرائیویٹ ایجوکیشن مافیا بھی یقیناً ہے ۔ پھر کس منہ سے یہ روزِ محشر اِن بچوں کا سامنا کرسکیں گے جنہیں ان کے فیصلوں نے زندہ درگور کردیا ۔ احتساب اور تحقیقاتی ادارے نجانے کیوں خاموش ہیں ؟شاید انہوں نے نبی پاک ﷺکا یہ فرمان نہیں سن رکھا کہ:
 ’’ عادل منصف روزِ محشر مینارۂ نور پر میرے ساتھ کھڑا ہوگا۔‘‘
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن