آئی ایم ایف اور ترقی پذیر ممالک کے کشکول

حکومت نے باربار اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کو ابتدا سے ہی کرنٹ اکاونٹ سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جسکی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری تھا ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ایک یہ کہ آئی ایم ایف کے قرض دینے میں انکے مقاصد کیا ہیں دوسرے اس قرض سے ہمارا کیا مصرف ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ان قرضوں سے غریب آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے اور یا یہ کہ اسٹیٹ بنک کی خودمختاری پاکستا ن کی معیشت پر کیسے اثر انداز ہوگی اور ان قرضوں سے کیا مثبت یا منفی پہلو سامنے آئے گا اور ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے تو ملک کو قرض میں ڈبویا ہی تھا وہ کیا افتاد آئی کہ عمران خان ہمیشہ کہتے تھے کہ وہ قرض نہیں لیں گے لیکن پاکستان کی تااریخ کا مہنگا ترین قرض لینا پڑا جہاں تک آئی ایم ایف کا تعلق ہے یہ بات واضح کہ عالمی مالیاتی فنڈ پر جتنی نکتہ چینی ہوتی ہے۔ اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ اس نظریاتی اور عملی پس منظر کو لے کر چلتا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک عیسائی دنیا کے محتاج رہیں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے یہ بھی ہے کہ یہ ادارہ وسائل کو ترقی پذیر ممالک سے لے کر ترقیاتی ممالک کی طرف دھکیلتا ہے اگرچہ آئی ایم ایف کے قرض دینے کا مقصدہی منڈی کے اصولوں کی بنیاد پر معیشت کو چلانا ہے پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ سٹرکچر ل ایڈجسٹمنٹ پروگرام میں ستر کے عشرے میں شامل ہوا نوے کی دہائی میں ڈی ریگولیشن اور آزاد تجارت کے حوالے سے پیش رفت ہوئی لیکن اس وقت مسائل قابو سے باہرہوچکے تھے اور قرضون کا انبار لگ چکا تھا دوسری طرف ماضی کی رٹے رٹائے اصولوں کے مطابق تمام مسائل کا ایک ہی حل موجود تھا کہ خسارے سے بنا ئے بجٹ ملکی معیشت کو خسارہ دیمک کی طرح اندر تک چاٹ جاتا ہے ۔گزشتہ دنوں وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق حاصل کردہ قرضوں پر سود کی ادائیگی اوراس کے متعلق اخراجات کے لئے حاصل قرض کا42 فیصد بنتا ہے جبکہ 31 فی صد اضافہ روپے کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے قرض کے حصول کی بڑی وجہ مالی خسارہ پورا کرنا ہوتا ہے اپوزیشن کا اتنے بڑے قرض کی ادئیگی پر اعتراض کسی حد تک بجا ہے لیکن ان کے اپنے دور میں جو برے بڑے قرض لئے گئے انکا ذمے دار کون ہے۔ یقیناماضی قریب یا بعید میں عمران خان بھی جوابدہ ہوسکتے ہیں یہ پہلا موقع نہیں کہ قرض جی ڈی پی کی مقررہ حد سے تجاوز ہوا بلکہ گزشتہ دو حومتوں کے دور میں بھی یہ حد عبور ہوئی اسوقت پاکستان پرقرضے کا بوجھ 36 کھرب سے تجاوزکرچکا ہے جوکہ ملک کا مجموعی قرضہ کا 87 کھرب بنتا ہے اس میں بیرونی قرضے اسکے علاوہ مالی خسارے کو پورا کرنے کے لئے مرکزی بنک اور تجارتی بنکوں سے لئے گئے قرض شامل ہیں اب ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان پر قرضوں کا اسقدر بوجھ ہے کہ ایک خدشے کے مطابق یہ قرضوں کا حجم پاکستاں کی قرضوں کی واپسی کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے سیاسی جماعتوں نے ریوڑیاں بانٹیں آج اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ عوام کون سنتاہے بالآخر شرائط اور مطالبات تو ماننے پڑیں گے جب تک اس نظام زر سے چھٹکارا نہیں ہم تبدیلی کیسے لائیں گے غربت کیسے مٹائیں گے۔ ترقی پذیر ممالک کے لئے آئی ایم ایف کے ایجنڈے میں یہ بات شامل ہے کہ اصلاحات اور قرض جاری کرنے کا عمل شفاف ہو جو حکومتیں لوٹ مار میں ثانی نہیں رکھتیں ان کو قرض جاری نہ کیا جائے حکومتیں31 فیصد ترقیاتی کاموں اور بجٹ خسارے مین کمی کے لئے ترقیاتی اخراجات کی مد سے کٹوتی نہ کریں تاکہ یہ ادارہ مستقبل میں وسیع تر بنیادوں پر کام کرسکیں۔ 

ای پیپر دی نیشن