کمپیوٹر کی ایجاد کے ساتھ ہی اس سے وابستہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں نے بھی اپنی جگہ بنا لی تھی۔1971ء کی بات ہے جب جون ڈی ڈریپر نامی شخص نے سب سے پہلے ہیکنگ کو استعمال کیا۔ ایسا شخص جو دوسرے کی ملکیت پر قابض ہوکر اس کا ڈیٹا بدل دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔1981ء میں کمپیوٹر سے منسلک ہیکنگ کیلئے Black Bart نے امریکہ میں ایک Ware Lordsفارم بنایا جہاں نوجوانوں کو ہیکنگ کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔کسی چوری/ڈکیتی کی طرح Internetپر یہ کام روزبروز بڑھتا چلا گیا۔ اگرچہ شروع میں ہیکنگ کو مثبت مقاصد کے استعمال کے لئے بنایا اور تربیت دی گئی لیکن رفتہ رفتہ سوائے منفی پہلوئوں کے اس کا کوئی بھی مقصد باقی نہ رہا۔ خاص طور پر موبائل اور اس سے منسلک مختلف طرح کی سوشل میڈیا ایپس اورپلیٹ فارمز اس کے خاص نشانے پر ہی آگئے۔ دْنیا بھر میںہیکڈ اکائونٹس کی تعداد میلینز سے بڑھ کر بیلینز تک جا پہنچی۔ لیکن اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے اس جرم کے خلاف اتنی بڑی ایپس کی مالک کمپنیوں کے مالکان اور متعلقہ انتظامیہ بھی کوئی خاص لائحہ عمل تیار کرنے اور اس پر عملدرآمد کروانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا سے جن لوگوں نے فائدہ اْٹھانے کی بجائے اس کو محض تفریح طبع کا باعث سمجھ کر استعمال کرنا شروع کیا۔ بعد میں اْنہیں اس کا بھاری خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان ہی میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکیوں نے غیر اور ناواقف لوگوں کو اپنی تصاویر شیئر کررکھی ہیں۔ اب ایسا اکائونٹ کسی ہیکر کے ہاتھ لگنے کا مطلب ہے کہ اْس متاثر کو بلیک میل ہونے سے اب کوئی نہیں روک سکتا۔ کچھ عرصہ سے یہ معاملہ کافی طول پکڑ گیا اور ہزاروں لوگوں کے اکائونٹس چوری کرکے اْن کے اکائونٹس سے اْن کی فرینڈز لسٹ میں موجود لوگوں کو نازیبا مواد بھیجا جاتا رہا ہے زیادہ تر ایسے مجرم خواتین کے اکائونٹ پر اپنا ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایسی خواتین جن کے میسنجر یا وال پر کوئی بلیک میل کرنے والا مواد دستیاب نہ ہونے پر ہیکرز نے ایک اور راستہ اختیار کیا کہ اْن کی فرینڈز لسٹ میں موجود لوگوں سے پیسے طلب کرنے شروع کردئیے۔ شرم حیا میں کچھ لوگ اکائونٹ میں پیسے ٹرانسفر بھی کردیتے ہیں اور احسان رہ جاتا ہے اس شخص پر جسے اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی۔سائبر کرائم کا شکار صرف ہم لوگ ہی نہیں ہورہے بلکہ سائبر کرائم نام کا بل کسی نہ کسی نام سے تقریباً ہر ملک میں موجود ہے۔ امریکہ میں تو سائبر کرائم لاء کے طورپر نافذ ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فون پر ایسا کوئی بھی فعل جس سے کسی کو ذہنی، جسمانی یا مالی نقصان پہنچے یا اس کی ساکھ کو نقصان ہو سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے اور سائبر کرائم دہشت گردی کے طور پر ایک جرم ہے جس کے لئے سخت سزائیں بھی مقرر ہیں۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد اس قدر سخت قوانین کا نفاذ ہوا ہے کہ دوبارہ ایسا بڑا حادثہ پیش نہیں آیا۔ اگرچہ ہمارے ہاں بھی اس کے لئے FBIکے زیر تحت سائبر کرائم کا ادارہ موجود لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کی کارکردگی کچھ زیادہ قابل تعریف نہیں ہے۔ پورٹل پر درخواست دینے کے بعد آپ کی درخواست پر عمل کرنے کا طریقہ کار بظاہر جتنا آسان بتایا جاتا ہے۔حقیقت میں ہرگز نہیں ہے۔اگر آپ کا کسی بھی طرح کا کوئی اکائونٹ ہیک ہوچکا ہے تو مجرم کو پکڑنے سے کوتاہی برتی جاتی ہے۔ آج کے دور میں مجرم کو پکڑنا کون سا مشکل ہے۔ جس فون پر مجرم بیٹھا کام کر رہا ہے اس کی شناخت ہوسکتی ہے۔ سم کی معلومات بھی خفیہ نہیں رہتیں اور خاص طور پر آپ جس انٹرنیٹ سے منسلک ہوتے ہیں اس کا آئی پی ایڈریس بھی ریکار ڈ کا حصہ بن جاتا ہے اور تو اور اب تو یہ شعبہ باقاعدہ دہشتگردی کے فروغ کا باعث بھی بن رہا ہے۔ وائرس زدہ کوڈ لکھنے یا پھیلانے پر 2سال قید یا10 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ میرے اور آپ کے ساتھ کتنے ہی ایسے لوگ جن کے ساتھ ایسا حادثہ ہوچکا ہے لیکن بتائیے ایسے کتنے لوگ ہیں جن کو قرار واقعی سزا بھی ہوچکی ہے۔ سی آئی اے کے سابق اہلکار اور خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے والے جلا وطن امریکی صحافی ایڈورڈ سنوڈن نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر کوئی موثر قدم نہ اْٹھایا گیا تو ہیکر سے کوئی فون محفوظ نہیں رہے گا۔