وزیراعظم میاں شہبازشریف کی زیرصدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈپلومیٹک سائفر کی کاپی وزیراعظم ہائوس کے ریکارڈ سے غائب ہے۔ اس معاملہ کی تحقیقات اور کارروائی کیلئے وفاقی کابینہ نے کارروائی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کمیٹی تمام ملوث کرداروں بشمول سابق وزیراعظم عمران خان‘ سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان اور پی ٹی آئی دور کے سینئر وزراء کیخلاف قانونی کارروائی کا تعین کریگی۔ انکوائری کمیٹی میں حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ وزیر خارجہ‘ وزیر داخلہ اور وزیر قانون کو شامل کیا جارہا ہے۔ اجلاس میں آڈیو لیکس کے معاملہ پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اس سلسلہ میں اجلاس کے شرکاء نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی طرف سے آڈیو لیکس کی مکمل تحقیقات کرانے کے فیصلہ کی تائید کی تاہم اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ڈپلومیٹک سائفر سے متعلق یکے بعد دیگرے سامنے آنیوالی آڈیوز نے سابق حکومت اور عمران خان نیازی کی مجرمانہ سازش بے نقاب کردی ہے۔ وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا کہ ایک ڈپلومیٹک سائفر کو من گھڑت معانی دے کر سیاسی مفادات کی خاطر کلیدی قومی مفادات کا قتل کیا گیا اور فراڈ‘ جعلسازی‘ فیبریکیشن کے بعد اسے چوری کرلیا گیا۔ یہ آئینی حلف اور دیگر متعلقہ قوانین و ضوابط بالخصوص آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ریاست کیخلاف ناقابل معافی جرائم کا ارتکاب ہے۔
کابینہ کی رائے میں اس فعل کے ذریعے کلیدی ریاستی مفادات پر سیاسی مفادات کو فوقیت دی گئی اس لئے آئین و قانون اور متعلقہ ضوابط کے تحت لازم ہے کہ اس سارے معاملے کی باریک بینی سے چھان بین کی جائے اور ذمہ داروں کا واضح تعین کرکے انہیں قانون کے مطابق کڑی سزا دی جائے۔ اجلاس کے دوران کابینہ کو دی گئی بریفنگ میں یہ انکشاف ہوا کہ متعلقہ سائفر کی کاپی وزیراعظم کے ریکارڈ سے غائب ہے جبکہ اس سائفر کی وزیراعظم ہائوس میں وصولی کا ریکارڈ میں اندراج موجود ہے جبکہ اسکی کاپی ریکارڈ سے غائب ہے۔ قانون کے مطابق سائفر کی کاپی وزیراعظم ہائوس کی ملکیت ہوتی ہے۔
بے شک اس امر پر کسی دوسری رائے کی گنجائش نہیں کہ صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز‘ وزرائے اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی کابینائوں کے ارکان کو جن اہم سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور وہ ملک کے دفاع و سلامتی اور اسکے مفادات کے تحفظ کی خاطر ان سے صیغۂ راز میں رکھنے کی متقاضی ہوتی ہیں انہیں کسی بھی حوالے سے افشا نہ کرنا یا افشا نہ ہونے دینا ان شخصیات کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جس کا وہ آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھاتے وقت عہد بھی کرتے ہیں۔ ان تمام اعلیٰ حکومتی‘ انتظامی شخصیات کے حلف کی عبارت آئین پاکستان کے تھرڈ شیڈول میں صراحت کے ساتھ موجود ہے اس لئے بالعموم بھی ایسی شخصیات سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال سامنے آرہی ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر تک میں موجود حساس اور اہم دستاویزات کے مندرجات پارٹی کے سیاسی مفادات کے تحت نہ صرف افشا کئے جاتے رہے بلکہ اصل عبارت میں ردوبدل بھی کیا جاتا رہا۔ بے شک عام انتخابات میں اقتدار کیلئے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنیوالی پارٹی ہی وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت تشکیل دیتی ہے تاہم صدر‘ وزیراعظم‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر‘ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور اسی طرح دوسرے اہم حکومتی و سرکاری مناصب پر فائز ہونیوالی شخصیات کو اپنی پارٹی کی نہیں بلکہ پورے ملک اور پوری قوم کی نمائندگی کرنا ہوتی ہے اور اس حیثیت میں انکی بنیادی آئینی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملکی مفادات اور سکیورٹی کے معاملات پر کسی قسم کی زد نہ پڑنے دیں اور اپنی دسترس میں موجود اہم سرکاری دستاویزات کے تحفظ اور رازداری کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہونے کے ناطے صدر مملکت کی اہم سرکاری رازوں کی حفاظت کی ذمہ داری اور بھی زیادہ ہے جبکہ وفاق کی علامت ہونے کے ناطے انہوں نے وفاق اور اسکی اکائیوں کے مابین باہمی ربط استوار رکھنے کی ذمہ داری بھی نبھانا ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر صدر اور گورنرز کے مناصب کیلئے یہ آئینی قدغن لگائی گئی ہے کہ وہ نہ کسی پارٹی کی رکنیت اور نہ ہی کوئی منفعت بخش عہدہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
اگر اس حوالے سے پی ٹی آئی کے دور حکومت کا جائزہ لیا جائے تو صدر مملکت سمیت آئینی مناصب پر فائز کم و بیش تمام شخصیات اپنے منصب کے تقاضوں کے برعکس پی ٹی آئی کی سیاست کا عملاً حصہ بنتی اور اسکے سیاسی مفادات کے فروغ و تحفظ کیلئے ہی اپنے سرکاری مناصب کا ناجائز استعمال کرتی نظر آتی رہی ہیں۔ اس وقت بھی صدر مملکت بطور خاص پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی ہدایات کے مطابق اور آئین سے ہٹ کر اپنا منصب پی ٹی آئی کی سیاست کے مطابق بروئے کار لا رہے ہیں جو آرمی چیف کے تقرر کے معاملہ میں بھی عمران خان کے غیرآئینی موقف کی حمایت کر چکے ہیں اور وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر بھی انہوں نے پی ٹی آئی قیادت کے امریکی سائفر کے حوالے سے گھڑے گئے بیرونی مداخلت کے خودساختہ بیانیے کی تائید کی اور اس بیانیے کو بنیاد بنا کر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک مسترد کئے جانے کے بعد وزیراعظم کے وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے حکمنامہ کی آنکھیں بند کرکے تعمیل کردی جس کا بالآخر سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑا۔ اس ازخود نوٹس کیس کے فیصلہ میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک اور اسکے مابعد اقدامات کی بنیاد پر صدر‘ وزیراعظم‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر نے اپنی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کیا۔
اس معاملہ میں اہم آئینی مناصب پر فائز حکومتی شخصیات کی جانب سے آئین سے انحراف تو الگ معاملہ ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ روس کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے ناپسندیدگی کے اظہار کیلئے پاکستان کے سفیر کو دیئے گئے روٹین کے سائفر کو پی ٹی آئی کی حکومتی اور سیاسی قیادتوں نے جس طرح اصل حقائق کو تبدیل کرکے‘ توڑ موڑ کر اور جعلسازی سے اسکی عبارت میں ردوبدل کرکے بیرونی مداخلت کے بیانیہ کیلئے استعمال کیا وہ یقینی طور پر ملک کی سلامتی اور قومی مفادات کو دھچکا لگانے کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس خودساختہ بیانیہ کے باعث پاکستان اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات بھی خراب ہوئے اور اقوام عالم میں پاکستان کی ساکھ بھی مجروح ہوئی۔
منظرعام پر آنیوالی پی ٹی آئی دور کی آڈیو کیسٹس کی بنیاد پر اس معاملہ میں تو اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر پی ٹی آئی قیادت نے خود امریکی سائفر کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی سازش کی اور اسکی عبارت میں ردوبدل کرکے اس سائفر کو پی ٹی آئی حکومت کیلئے امریکی دھمکی کے قالب میں ڈھالا گیا جبکہ یہ سازشی کہانی خود عمران خان نے تیار کی اور اس پر کھیلنے اور بیرونی مداخلت کے بیانیہ میں امریکہ کا نام نہ لینے کی ہدایات بھی خود عمران خان نے جاری کیں۔ اب گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں امریکی سائفر کے وزیراعظم ہائوس کے ریکارڈ سے غائب ہونے کے انکشاف پر یہ معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے اس لئے اسکی ٹھوس بنیادوں پر جامع تحقیقات اور تمام متعلقین کیخلاف قانون و آئین کے تقاضے کے مطابق کارروائی وقت کا تقاضا ہے۔ اس کیلئے وفاقی کابینہ کی جانب سے انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تو اسے کسی قسم کی مصلحتوں اور سیاسی مفادات کو خاطر میں لائے بغیر انکوائری کا آغاز کرکے اسے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے بصورت دیگر ملک میں آئین وقانون کی عملداری بھی مذاق بن کر رہ جائیگی۔