معزز قارئین ! کل ( 3 اکتوبر کو) اہلِ پاکستان اور بیرونِ پاکستان فرزندان و دُخترانِ پاکستان اپنے اپنے انداز میں ، عاشقِ رسولؐ، شاعرِ مشرق ، مصّور پاکستان ، علاّمہ محمد اقبالؒ کے فرزند ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبالؒ کی ساتویں برسی منائیں گے۔ ڈاکٹر جاوید اقبالؒ5 اکتوبر 1924ء کو، سیالکوٹ شہر میں پیدا ہُوئے تھے اور 91 سال کی عمر میں 3 اکتوبر 2015ء کو، خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن حاصل کرنے کے لئے ’’دوربین‘‘ مصّورِ پاکستان نے لندن میں مقیم بیرسٹر محمد علی جناحؒ کو، ہندوستان آنے کی دعوت دِی کہ ’’ آپؒ! آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہُوئے جدوجہد کریں اور اُن کیلئے الگ وطن حاصل کریں !‘‘۔
پھر ، اِسلامیان ہند نے بیرسٹر محمد علی جناحؒ کو قائداعظمؒ تسلیم کرلِیا اور قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ ’’ بابائے قوم‘‘ کہلائے ۔ ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی ؒ کی جب بھی ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال سے ملاقات ہوتی تو، وہ اُنہیں ’’ مُرشد زادہ ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
…٭…
’’ جاوید نامہ / جاوید اقبالؒ کے نام ! ‘‘
معزز قارئین ! ۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی اُردو اور فارسی کی نظم میں کئی بار اپنے فرزند جاوید اقبال ؒ کو مخاطب کِیا۔
فارسی زبان میں علاّمہ اقبالؒ کی ایک کتاب کا نام ہے ’’ جاوید نامہ‘‘ ۔ مَیں اُس کے چار شعر درج کر رہا ہُوں ۔ علاّمہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ …
’’ترسم ایں ، عصرے کہ تو زادی دراں!
در بدن غرق است ، و کم داند زجاں!
چوں بدن ، از قحطِ جاں ، ارزاں شود!
مردِ حقؔ در خویشتن پنہاں شود!
در نیابد ، جستجو ، آں مرد را!
گرچہ بیند رُوبرو آں مرد را!
تو مگر ، ذوقِ طلب ، از کف مدہ!
گرچہ درکارِ تو ، اُفتد صد گرہ!‘‘
…٭…
’’مردِ حق !‘‘
معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ نے ، فرزند ِ اقبالؒ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …
’’ مَیں اُس زمانے سے ڈرتا ہُوں، جس میں تم پیدا ہُوئے۔ کیونکہ یہ زمانہ جسم میں غرق ہے اور رُو ح کو نہیں پہچانتا ۔ جب رُوح کے قحط کے سبب جسم اَرزاں ہو جائیں تو مردِ حق ؔ اپنے اندر چھپ جاتا ہے ۔ اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کرو تو، دِکھائی نہیں دیتا حالانکہ ،تمہارے سامنے ہوتا ہے ۔ مگر تم اُس کی تلاش کے لئے اپنی تگ و دو جاری رکھو ،خواہ تمہیں کتنی ہی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں !‘‘ ۔
…٭…
’’ اپنا گریباں چاک ! ‘‘
2003ء کے اوائل میں ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال صاحب کی ’’ اپنا گریباں چاک‘‘ کے عنوان سے ( خود نوشت سوانح حیات ) شائع ہُوئی ۔ ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید نے مجھے اُس کا ایک نسخہ پیش کِیا۔ دراصل علاّمہ اقبال ؒ کی غزل کا مکمل شعر یوں ہے …
’’فارغ تو نہ ، بیٹھے گا ، محشر ؔمیں جنوں اپنا
یا اپنا گریباںؔ چاک، یا دامنِ یزداؔں چاک!‘‘
…٭…
’’اپنا گریباں چاک ‘‘ میں ڈاکٹر جاوید اقبالؒ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ میری ولادت کے وقت میرے دادا شیخ نور محمد صاحبؒ زندہ تھے وہ ایک صوفی بزرگ تھے ، جب میرے پدرِ محترم نے میرا نام جاویدؔ رکھا۔ اُس وقت شاید برصغیر پاک و ہند میں عمر میں مجھ سے بڑا ، کوئی شخص نہیں تھا، جس کا نام جاوید اقبال ہو!۔
1931ء میں پدرِ محترم دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے انگلستان میں تھے تو، اُنہوں نے میرے نام خط لکھا جو، دراصل اِس نظم کا شانِ نزول تھا‘‘ ۔
معزز قارئین!۔ مَیں اُس نظم کے صِرف دو شعر پیش کر رہا ہُوں …
’’ دیارِ عشق میں ، اپنا مقام پیدا کر!
نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر!
مرا طریق ،امیری نہیں ،فقیری ہے!
خُودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر!‘‘
پدرِ ؔمحترم سے مخاطب ہو کر ڈاکٹر جاوید اقبالؒ لکھتے ہیں کہ ’’ ایک مردِ حقؔ (قائداعظمؒ)، جسے آپؒ ہی نے ہمارے لئے منتخب کِیا تھا ، کی قیادت میں ہم نے پاکستان حاصل کرلِیا۔ بعد ازاں جو بھی ’’ مردان و زنانِ حق ‘‘ ہمیں مُیسر آئے ، آپ خود ہی بتائیے کہ وہ آپ کے قائم کردہ معیار پر پورے اُترتے تھے ؟ ، پھر بھی آپؒ کے فرمان کے مطابق ہم شجر سے پیوستہ ہیں؟‘‘۔
ڈاکٹر جاوید اقبالؒ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ اے پدرِ محترم!۔ (میرے بیٹے ) منیب، ( منیب اقبال) ، ولید ( ولید اقبال) اور اُن کی نسل کے آزردہ ؔنوجوانؔ ، مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ’’ اگر تلاش کے باوجود کوئی مردِ حقؔ نہ ملے ، کسی با خبر مرد ؔکی صحبت ہمیں میسر نہ آئے ۔ اگر صحیح قیادت ہمارے نصیب میں نہ ہو ، تو ہم کیا کریں ؟، مَیں اُنہیں وہی پیغام دے سکتا ہُوں ، جو آپ نے مجھے ’’ جاوید نامہ ‘‘ کے آخری حصہ ’’ خطاب بہ جاوید ‘‘ میں دے رکھا ہے!‘‘ ۔
معزز قارئین!۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں اپنے فرزند کے نام علاّمہ اقبالؒ نے جو، پیغام دِیا تھا اُس کا ترجمہ بیان کرتا ہُوں…
’’ غم اور دلگیری ایمان کی کمزوری ہے ۔
نوجوانو! جب تک تم غیر اللہ سے لالچ رکھتے ہو
اور جب تک اِ سے کچھ نہ ملنے کے غم سے تم آزاد نہیں ہو جاتے
تمہارے مسائل حل نہ ہوں گے۔ تم جاویدؔ نہ بن سکو گے۔
یاد رکھو! حرص ہمیشہ کی محتاجی ہے
پس اپنے اوپر ضبط رکھو‘‘۔
خیر اندیش
یکے از فرزندانِ اقبالؔ
سوال یہ ہے کہ ’’ قائداعظمؒ کے بعد پاکستانی قوم کو ،کوئی ’’ مردِ حق‘‘ کیوں نہیں ملا؟۔
دراصل علاّمہ اقبال ؒ نے تو بہت ہی پہلے کہہ دِیا تھا کہ …
’’ہزاروں سال نرگس ، اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ،ہوتا ہے ، چمن میں ، دید ہ ؔ وَر پیدا
…٭…
’’زندۂ جاویداقبالؒ !‘‘
علاّمہ اقبالؒ کی ’’ زبورِ عجم ‘‘ کی ایک نظم کا شعر ہے کہ …
’’شوق اگر زندۂ جاوید نباشد ،عجب اَست!
کہ حدیث ِ تو ،دریں یک دو نفس ،نتواں گفت!‘‘
یعنی۔ ’’ تعجب کی بات ہے کہ ’’ شوق ( محبت ) زندہ ٔ جاوید نہ ہو ۔ اِس زندگیء مُستعار کے دو چار لمحوں میں آپ کی محبت کی بات پوری طرح بیان نہیں ہوسکتی؟ ‘ ‘ ۔
…٭…
20 فروری 2014ء کو، ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیاتو، اُس کے بعد ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبالؒ اور اُن کی اہلیۂ محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے مجھے مبارکباد دِی ۔ یہ میرا بہت بڑا اعزاز تھا / ہے ! ۔
٭…٭…٭