قصہ انٹرویوز کا  (2)

Oct 02, 2022

یونیورسٹی کے انٹرویوز سے تو کم امیدواروں کو واسطہ پڑتا ہے لیکن پبلک سروس کمیشن میں تحریری امتحانات اور انٹرویوز کے تجربات سے گزرنے والوں کی تعداد نسبتاً بہت زیادہ ہے۔ وفاقی پبلک سروس کمیشن اور صوبائی پبلک سروس کمیشن مختلف قسم کے امتحانات منعقد کراتی ہیں اور تحریری امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد امیدواروں کو انٹرویوز دینے پڑتے ہیں۔ قسم قسم کے امتحانات اور انٹرویوز سے قطعِ نظر کرکے میں کالجوں کے لیے لیکچررز کے طریقِ انتخاب پر کچھ حقائق سامنے لانا چاہتا ہوں۔ کسی بھی صوبے کی پبلک سروس کمیشن چند ممبروں اور ایک چیئرمین پر مشتمل ہوتی ہے۔ پھر کچھ انتظامی عملے کے ارکان ہوتے ہیں جو امتحانات اور انٹرویوز کا نظام عملی طور پر چلاتے ہیں۔ لیکچررز کے تقرر کے لیے اسامیاں مشتہر کرنے اور پھر دفتری چھان بین کے بعد تحریری امتحان کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ اس میں کامیاب ہونے والوں کو انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے اور منتخب ہونے والوں کا تقرر مختلف کالجوں میں کر دیا جاتا ہے۔اس سارے طریقِ کار میں اہم ترین کردار چیئرمین اور ممبرز کا ہوتا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد ریٹائرڈ پولیس افسروں یا ریٹائرڈ اونچے عہدوں پر کام کرنے والے فوجیوں کی ہوتی ہے۔ پھر کم تر نوکر شاہی کے افراد ہوتے ہیں مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ محکمۂ تعلیم، صحت یا عدلیہ وغیرہ سے کسی کا تقرر کیا جاتا ہو۔ پولیس، فوج یا بیوروکریسی کی ساری تربیت اور ہی انداز کی ہوتی ہے اور وہ تمام تر خلوص کے باوجود یہ نہیں جانتے کہ کالجوں میں تدریس کے تقاضے کیا ہیں۔ تحریری امتحان سے لے کر انٹرویوز تک سارا نظام ایک بندھے ٹکے طریق کار کے مطابق ہوتا ہے۔ دفتری عملہ مرتب پرچہ سے لے کر انٹرویو لینے والے ماہرین کے تقرر تک ممبروں کو ایسے چکر دیتا ہے کہ وہ دام میں پھنس جاتے ہیں اور عملہ اپنی مرضی کے لوگوں کو مختلف ذمہ داریاں دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
پرچوں کے مرتبین امیدواروں کی کامیابی کے لیے ’گائیڈیں‘ لکھتے ہیں۔ وہی پرچہ بنانے والے اور وہی گائیڈیں لکھنے والے۔ چنانچہ سوال ان گائیڈوں میں سے آتے ہیں اور امیدواروں کو بھی یہ راز معلوم ہو جاتا ہے اور گائیڈیں خوب بکتی ہیں۔ چنانچہ معیاری کتابیں پڑھنے کی بجائے امیدوار گائیڈوں سے تیاری کرتے ہیں اور عموماً وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ پرچہ صد فی صد معروضی سوالوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ گنے چنے سوال ہر سال دہرا دیے جاتے ہیں چنانچہ کامیابی کے لیے ’رٹے‘ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی ممتحن حضرات کو معروضی سوال بنانے نہیں آتے۔ صحیح معروضی سوال کا اصلِ اصول یہ ہے کہ اس کا درست جواب صرف اور صرف ایک ہونا چاہیے۔ اگر دو جواب ممکن ہوں تو معروضی سوال غلط ہوگا لیکن کئی ایسے سوال آ جاتے ہیں جن کے جواب متنازعہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہ سوال آئے کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟ اور سامنے تین نام لکھے ہوں اور اس سلسلے میں محققین کسی جواب پر متفق نہ ہوں تو یہ سوال بنتا ہی نہیں لیکن ایسے سوال آتے رہتے ہیں۔ پرچہ بنانے والا اگر دفتر کو غلط جواب مہیا کرے تو غلط جواب صحیح ہوگا اور صحیح جواب غلط ہو جائے گا۔
ایسا ہوتا رہتا ہے اور کمیشن کے ممبروں کو ان باریکیوں کا پتا تک نہیں ہوتا۔ اس لیے میں نے بہترین اور لائق ترین امیدواروں کو ناکام ہوتے اور نسبتاً کمزور امیدواروں کو ان مراحل سے کامیاب گزرتے دیکھا ہے۔ تحریری امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد جب انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے تو وہاں قسم قسم کے ماہرینِ مضامین سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ لوگ جو اب ماہرِ مضمون بن چکے ہیں جب امیدوار تھے تو ایک سے زیادہ بار ناکام ہوئے۔ وہ اپنی ناکامی کا بدلہ امیدواروں سے لیتے ہیں۔ بعض تعلیمی اداروں کے درمیان رقابت ہے اس لیے ان کے ماہرین ایک دوسرے کے امیدواروں کو فیل کر دیتے ہیں۔ بعض ’ماہرین‘ اپنے مضامین میں کمزور ہوتے ہیں۔ وہ چٹوں پر سوالات اور جوابات لکھ کر لے جاتے ہیں اور اگر جواب ان کی چٹوں سے مختلف ہو تو امیدواروں کو فیل کر دیتے ہیں۔ بعض اپنی قابلیت کا سکہ بٹھانے کے لیے دقیق ترین سوالات کرتے ہیں تاکہ امیدواروں کی نالائقی اور ان کی لیاقت کا علم کمیشن کے ممبروں کو ہو جائے اور انھیں بار بار انٹرویو کرنے کے مواقع میسر آئیں۔ غرض کیا کچھ تفصیلات فراہم کی جائیں اور ان سے حاصل بھی کیا ہے؟ سارا نظام ہی ایسا بن گیا ہے۔ اس کو پوری نیک نیتی کے باوجود ٹھیک کرنا شاید پبلک سروس کمیشن کے لیے ممکن بھی نہیں بلکہ شاید اربابِ اختیار کے بس میں بھی نہیں۔
ہمارے ملک کے حکمران کتنے باصلاحیت ہیں؟ اگر وہ جمہوری طریقے سے آتے ہیں تو اوپر آنے کے لیے وہ کیا کچھ پاپڑ بیلتے ہیں؟ بہت بڑے بڑے انتخابی حلقے جن میں الیکشن لڑنے اور جیتنے کے لیے کروڑہا روپے صرف کرنے پڑتے ہیں۔ اتنی رقم صرف کرکے قومی خدمت کی توقع رکھنا ہی نامناسب ہے تو پھر سیاست دان ان مناصب کو کاروبار کا ذریعہ نہ بنائیں تو کیا کریں؟ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ الیکشن سے ان سرمایہ داروں کو باہر نکالا جائے؟ پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ عوامی مقبولیت کسی کی ہوتی ہے لیکن الیکشن میں کوئی اور جیت جاتا ہے۔ اگر مقبول ترین شخص بھی جیت جائے تو اسے مسائل کی تفہیم نہیں ہوتی سمجھ ہو تو اردگرد کے لوگ اسے اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں۔ اس سے اوپر اٹھنا چاہے تو طاقتور ادارے اسے ناک سے لکیریں نکالنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پھر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے طرح طرح کے دباؤ اسے کچھ کرنے نہیں دیتے۔
بہت سے مخلص لوگ سیاست دانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپس میں مل بیٹھیں اور ملک کے گھمبیر مسائل کو حل کرنے کے لیے بنیادی باتوں پر اتفاقِ رائے کر لیں مگر باہمی اختلافات دشمنیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ میرے مخالفت سیاست دان نیست و نابود ہو جائیں خواہ اس کوشش میں ملک تباہ و برباد ہو جائے۔ ان میں سے بہت سوں کا تو کچھ بھی نہیں بگڑے گا خواہ ملک پر کچھ بھی بیت جائے۔ ان کی جائیدادیں، سرمایہ، آل اولاد سب کچھ باہر ہے۔ وہ حسبِ ضرورت خود بھی رفوچکر ہو جائیں گے۔ کچھ بگڑے گا تو ہمارا اور آپ کا۔ اس لیے بعض لوگ میرے جیسے عام لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بھی اس بقائے باہمی میں شریک ہو جائیں اور اکثر ’مڈل کلاسیے‘ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔
کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے
آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے
……………………(ختم شد)

مزیدخبریں