منزل کی جستجو میں کیوں بھٹک رہا ہے راہی


 کڑکتی دوپہر میں، ننگے پائوں، پسینے سے شرابور، ایک جوان اندھا دھندبھاگا جا رہا تھا۔ اس کی سانس دھونکنی جیسے چل رہی تھی اور چہرے پر بے چینی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ ایک جاننے والے نے روک کر پوچھا ،’’خیر تو ہے، ایسے سر پٹ کدھر اور کیوں دوڑے جا رہے ہو؟‘‘وہ بولا، ’’مجھے جلد از جلد’ خلیفہ ٹاور‘ پہنچنا ہے۔ اعلان ہواہے کہ پہلے پہنچنے والے دس خوش نصیبوں کوایک ایک کار انعام میں دی جائے گی‘‘۔ اس شخص نے پوچھا، ’’ یہ ٹاورکہاں ہے ، کچھ پتا بھی ہے؟ ‘‘ جوان کہنے لگا ، ’’پتا تو نہیں ہے ، مگر راستے میں کسی سے پوچھ لوں گا‘‘۔
ہمارے آج کے نوجوان کا یہی المیہ ہے ۔وہ پسینے سے شرابور، پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اندھا دھند بھاگا جا رہا ہے۔نہ اسے راستے یا منزل تک مسافت کے بارے میں راہنمائی دستیاب ہے اور نہ ہی وہ اس کے حصول کا طالب ہے۔ لہٰذا بھاگتے بھاگتے ،تھکن سے چور ہو کر ، کاغذوں پر سجی، بھاری بھرکم ،اجلی اجلی ڈگریوں کو بار بارالٹتا اور دیکھتا ہے۔ یہ ڈگریاں خلیفہ ٹاور تک پہنچنے کے خواہشمند نوجوان کی طرح اسے سر پٹ دوڑاتی ضرور ہیں تاہم منزل تک کامیابی سے پہنچنے کا زادِ راہ قطعا ًثابت نہیں ہوتیں۔ کیونکہ ڈگریوں پر درج تعلیم کی مقدار کاغذ کے صفحے سے اتر کر اس کی ذہنی اور تربیتی استطا عت میں ڈھلی ہی نہیں ہوتی ۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا ؎
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدائے لاالہ الااللہ
تخلیقِ پاکستان کے وقت سے لیکر آج تک ہر بدلتی سرکار، کسی مربوط تعلیمی پالیسی کے بغیر، نصابِ تعلیم کو متعلقہ جماعت کی کتابوں میں دستیاب کرتی آئی ہے۔کسی ایک سرکار نے بھی اس نصاب کو تربیت کا سامان بنانے کا تکلف نہیں برتا۔ لہٰذا تعلیم کتاب کے صفحات سے اوپر اُٹھ ہی نہیں سکی۔ جو آج تک اس میدان میں ہوا وہ محض ڈنگ ٹپائو تھا ، اور اسی کو ہی مربوط تعلیمی نظام کا درجہ حاصل رہا ہے۔
 کُجا یورپ کے ترقی یافتہ ممالک، انڈونیشیا جیسے ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک میں بھی ہر سکول میں باقاعدہ ایک ماہرِ نفسیات متعین ہے جو نہ بذاتِ خود طلباوطالبات کے ذاتی، اتالیقی یا گھریلو مسائل سے جانکاری حاصل کرنے کے بعد ان کی تشویش یا ڈپریشن کی وجوہات کو دریافت کر کے اُسے ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے بلکہ تربیت یافتہ اساتذہ اپنی اپنی کلاس کے ہر طالب علم پر نظر رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی طالب علم کسی الجھن کاشکار تو نہیں، کلاس میں اسباق پر سے اس کی توجہ تو نہیںہٹ رہی یا وہ کسی اور مسئلے سے دوچار تو نہیں۔بھنک پڑنے پروہ فوراً متعلقہ طالب علم کی ماہرِ نفسیات کے ساتھ نشست کا اہتمام کراتے ہیں جو طالب علم کی تعلیمی اور شخصی تربیت میں انتہائی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح تعلیمی ادارے کا ماحول باہمی لحاظ ،سماجی ذمہ داری اور معاشرتی اُمنگوں کے ترجمان کے طور پر پنپتا رہتاہے۔ مگر ہمارے ڈنگ ٹپائو نظام میںایسا سوچنا زمینی حقائق سے بغاوت کے مترادف ہے۔
ہمارے ہاں بڑی ڈگری کا حصول تمام تر تعلیمی ترقی کی منہاج بن کر رہ گیا ہے۔ کسی ڈگری یافتہ کو ہنر سیکھنے کا مشورہ تودے کر دیکھیں، وہ اس مشورہ کو اپنی ڈگری کی ناقابلِ معافی توہین سے تعبیر کرے گا۔جہاں ہنر سے عار اور سرکاری نوکریوں کے ہوشربا تعاقب نے نوجوانوں کی اکثریت کو بے روزگاری سے ہمکنار کیا ہے وہاں’’ تعلیم یافتہ جہالت ‘‘میں بے پناہ اضافہ کے باعث سماجی و معاشی اقدار اذیت ناک شکست و ریخت سے دوچار ہوئی ہیں۔
پچھلے دنوں فیصل آباد میں ا یک د وست نے ایک ریستوران میں ناشتے کی دعوت دی۔ دوران ِ تناول دوست نے بتایا کہ انہوں نے ریستوران اور اس سے ملحق ہوٹل کے مالک کو اپنی آنکھوں سے قلفی کی ریڑھی لگاتے دیکھاہے ۔اُس کی استقامت اورکام میں لگن نے اُسے اتنے عظیم الشان ہوٹل کا مالک بنا دیا ہے۔ اگر وہ سرکاری نوکری کے خلیفہ ٹاور کی طرف دوڑتا رہتا تو شاید رزقِ حلال سے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے چھت بھی مہیا نہ کرپاتا۔ مگر نجی کام سے عدم نفرت اور اپنے ہنر پر اعتماد کی بدولت اُس نے ہمت نہ ہاری اور نتیجتاً اپنی اور اپنے بچوں کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ سینکڑوں دوسرے گھروں کے چولہے جلتے رہنے کا موجب بھی بنا۔اس نے محنت کی عظمت کو سمجھا اور منزل کو جا لیا۔مگر جواس کے ساتھی صبح وشام ڈگریاں کھول کھول کر حاصل کردہ نمبر دیکھتے رہے اور امتحانی نظام کو کوستے رہے وہ بے روزگاری سے دامن نہ بچا سکے۔
اولاً حصولِ تعلیم کے لئے طالب علم کی دلچسپی کو ملحوظِ خاطر رکھنا اشد ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے جسے ہم مستقبل میں سی ایس ایس کرانا چاہتے ہوں، وہ ایک اچھا ڈاکٹر بننے کا اہل ہو۔ اورجسے ڈاکٹر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اس کے اندر انجینئرنگ کا شوق اور قابلیت موجود ہو۔ مگر ہماری عدم شناسائی اُسے تعلیم کی اس ڈگر پر ڈال دیتی ہے جو اس کے مستقبل کی سمت کے مخالف جاتی ہے۔ اگر دورانِ تعلیم ایسا نہیں ہوسکاتو حصولِ ڈگری کے بعد ہر جوان کو اپنی اہلیت و قابلیت کی شناخت پر توجہ کرنی چاہیے۔ اگر اُس کی پسند اور اہلیت مماثلت رکھتے ہوں تو اسے متعلقہ منزل کا انتخاب کرلینا چاہیے۔ اگراپنیٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ پسندکے خلاف وہ کچھ دیگر کرنے کی اہلیت کا حامل ہے تو اس کو اپنی اہلیت کو نکھار کر اپنی پسند میں ڈھالناچاہیے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص کے اندر بہترین ریاضی دان بننے کی اہلیت موجود ہے مگر اس کا شوق کرکٹر بننا ہے حا لانکہ کہ اُس کی ٹانگ میں لنگڑاہت ہے۔اہلیت کا علم ہو جانے کے بعد اُسے منزل کی جانب قدم اُٹھانے کا ’’آہر‘‘ کرنا چاہیے نہ کہ اپنی قابلیت کو سامنے رکھ کر خوابوں کے محل اُسارتا رہے۔ جب منزل کی جانب قدم اُٹھا لیا تو اپنی محنت کے سفر کو اس وقت تک رکنے نہ دے جب تک منزل کی طرف سے آواز نہ آئے کہ تو اتنا عظیم ہو گیا ہے کہ اب میرے سینے پر قدم رکھنا تیرا حق ٹھہرتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...