ملک میں اب تین ترین ہو گئے۔ شوکت ترین‘ جہانگیر ترین اور تیسرے کے نام کا انکشاف وزیراعظم شہبازشریف نے کیا ہے: کذاب ترین۔ انہوں نے جھوٹا ترین کا کہا‘ جس میں ردم (آہنگ) تو ہے پر زور نہیں۔ کذاب میں جو زور ہے جھوٹا میں کہاں۔ کذاب ہمیشہ ہی زور آور رہا‘ لیکن پائیدار نہیں۔
پہلے حسب نسب کے حوالے سے ترین کہلائے جاتے ہیں۔ تیسرا اپنے کسب سے ہے۔ کسب آپ سمجھتے ہیں‘ کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی۔ عزیز جہاں تو وہ ہے۔ ہے نا! پاکستان میں بہت سارے جہاں ہیں۔ ان میں سے ایک جہاں کا وہ عزیز ہے بلکہ عزیز ترین ہے۔ وزیراعظم نے بات تو خوب کہی‘ لیکن اس سے بھی خوب یعنی خوب ترین یہ تھا کہ وہ سائفر ترین کا نام دے ڈالتے۔ ہزاروں سائفر پاکستان کی سفارتی تاریخ میں آئے‘ لیکن مشہور ترین سائفر وہی ہوا جو پانچ ماہ سے موضوع سخن ہے۔ اس سائفر کے بعد ایک آڈیو لیک ہوئی اور پھر دوسری جس سے سائفر کے بطن سے نکالی گئی امریکی سازش کا بیانیہ غرق چاہ ہوا۔ پہلے پانی میں ڈوبا‘ پھر اوپر سے مٹی بھر دی گئی۔ یعنی پہلے غرق ہوا‘ پھر غرق ترین۔ نخشب (بخارا) کے جادوگر ابن ابی مقنع کے چاند کی طرح۔ اس نے بھی چار دن چاندنی کی خوب بہار دکھائی۔ یہ چاند شام گئے چاہ سے برآمد ہوتا تھا۔ رات گئے اسی چاہ میں ڈوب جاتا تھا۔ اس کنویں کا نام چاہ نخشب اور چاند کا ماہ نخشب رکھ دیا گیا۔ پھر ایک شب ایسا ڈوباکہ کہیں طلوع نہ ہوا۔ پہلے غرقاب ہوا پھر کنویں میں مٹی بھر گئی۔ پھر خود کنواں ہی مٹی میں دب گیا۔ اب کسی کو نہیں پتہ کہ یہ کہاں تھا۔ صرف ”ماہ نخشب“ کا ذکر باقی ہے۔ سائفر کا چاند بھی ڈوب گیا۔ کچھ دن کی بات ہے‘ کنواں بھی مٹی میں دفن ہو جائے گا۔ تاریخ سیاست میں البتہ اس کا ذکر رہے گا۔
................
چودھری پرویزالٰہی نے بڑی مبنی برحقیقت پیش گوئی کی ہے۔ فرمایا ہے نوازشریف کبھی واپس نہیں آ ئیں گے۔ مبنی برحقیقت پیش گوئیوں میں شیخ رشید کے علاوہ چودھری صاحب کا کوئی ثانی ہے نہ ثابت قدم۔ 20 سال پہلے 2002ءمیں بھی انہوں نے ایسی ہی مبنی برحقیقت پیش گوئی کی تھی کہ نوازشریف اور شریف خاندان کا قصہ پاک۔ اب کبھی سیاست میں نہیں آئیں گے۔ آج سے چار سال پہلے بھی انہوں نے یہی مبنی برحقیقت پیش گوئی بڑی ثابت قدمی سے دہرائی تھی کہ شریف خاندان کی سیاست ہمیشہ کیلئے ختم۔ کبھی واپس نہیں آئیں گے اور شوبازشریف کی واپسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 2007ءکے آس پاس ان کی ایک اور مبنی برحقیقت پیش گوئی بڑی مشہور ہوئی تھی کہ پرویزمشرف دس بار وردی میں صدر بنیں گے۔
ثابت قدم اور مبنی برحقیقت پیش گوئیاں شیخ رشید نے بھی بار بار کی ہیں۔ پیش گوئیاں کرنے کے علاوہ شریف خاندان کی سیاست کے مبنی برحقیقت جنازے کوئی چالیس بار پڑھ چکے۔ گویا پورا چہلم پڑھ دیا۔ خدا ان دونوں بزرگوں کو سلامت رکھے تاکہ وہ اسی طرح کی مبنی برحقیقت پیش گوئیاں کرتے رہیں۔
................
عمران خان نے ایک خطاب میں فرمایا کہ مریم نواز کے پاس تعلیم نہیں ہے اور بلاول کے پاس شعور نہیں ہے جبکہ آدمی کے پاس یہ دونوں چیزیں ہونا ضروری ہے۔ چلئے کم از کم یہ تو مان لیا کہ مریم نواز باشعور ہیں اور بلاول تعلیم یافتہ!
....................
دیگر ہنگامہ ہائے جاریہ کے ساتھ ایک ہلچل سی دینی حلقوں میں بھی چل رہی ہے اور اس پر اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے۔ یہ ”ٹرانس جینڈر بل“ کا معاملہ ہے۔ دینی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس بل کے تحت ہم جنس پرستی کی اجازت دی گئی ہے۔ اسے واپس لیا جائے۔ جماعت اسلامی اس میں پیش پیش ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ اصطلاح تو استعمال نہیں کی ہے البتہ بل کی بعض شقوں کو شریعت سے متصادم کہا ہے اور انہیں واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کونسل کی سفارشات پر غور اور اسی حساب سے بل میںترمیم تو اب کرنا ہی ہوگی۔ البتہ بل کو کئی بار پڑھا ہے‘ لیکن ہم جنس پرستی والی بات کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ نہ بین السطور‘ نہ فوق السطور نہ تحت السطور۔ ممکن ہے دینی حلقوں کو کچھ دور کا اندیشہ لاحق ہو اور بہرحال ایک صاحب نے بتایا کہ جن لڑکے لڑکیوں کو یہ لگے کہ دراصل وہ کسی ”ڈی فارمیٹی“ کا شکار ہیں‘ انہیں آپریشن کراکے جنس بدلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ دینی حلقے اسی کا کچھ اور مطلب لے رہے ہیں۔
یعنی ایک لڑکی اگر سمجھتی ہے کہ اس میں مردانگی کا تناسب بمقابلہ نسوانگی زیادہ ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ آپریشن کے بعد پوری جنس بن جائے۔ پنجاب میں ”ماہی منڈا“ کی اصطلاح ماضی میں سنا کرتے تھے‘ شاید یہ کوئی اسی قسم کا معاملہ ہو۔ اگر ایسی لڑکی کو لڑکا بننے کی اجازت نہ دی جائے تو شادی کے بعد یہ لڑکا نما لڑکی اپنی زندگی بھی دوزخ بنا ڈالے گی اور اپنے میاں کی بھی۔ اس صورت میں کوئی حل ڈھونڈا جائے تو کیا وہ غیر اسلامی ہے؟ یہ وضاحت ضرور نوٹ فرمائیں کہ یہ محض ایک سوال کیا ہے۔ فیصلہ دیا نہ فیصلہ دینے کی پوزیشن میں ہم جیسے لوگ ہو سکتے ہیں۔
یہ بات البتہ سچ ہے کہ ایسی لڑکیوں کی گنتی سماج میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے وہ طوفان کیسے آجائے گا جس کا اندیشہ دینی حلقوں کو ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ دینی حلقوں کی رائے درست ہی ہوگی۔
................
اسی کے ساتھ ایک معاملہ اور بھی ہے۔ ٹرانس جینڈر حضرات کو کسی بھی قسم کے قانونی حقوق حاصل ہیں نہ سماجی حقوق۔ یہاں سماجی حقوق سے مراد ہے کہ لوگ انہیں انسان سے زیادہ تماشا سمجھتے ہیں۔ ان کی تحقیر کرتے اور ان کے دکھ درد حتیٰ کہ ان کے جنازوں کا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کا پورا دور سیرت النبی اور اصحاب اربعہ کے سوانح و تاریخ کے باب میں پڑھ جائیے کسی ٹرانس جینڈر کے ساتھ کبھی کوئی غلط سلوک نہیں کیا گیا۔ ان کے جان و مال کی بھی وہی قیمت تھی جو دوسرے لوگوں کی۔ پاکستان میں معاملہ برعکس کیوں ہے؟
پختونخوا میں تو ان لوگوں کے خلاف فتوے جاری ہوتے ہیں اور ہر دوسرے روز ایک خواجہ سرا کے قتل کی خبر چھپتی ہے۔ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی یا کسی بھی دوسری دینی تنظیم کی طرف سے کبھی ایک حرف افسوس بھی سامنے نہیں آیا۔
ایک دیندار دانشور کا مضمون کل ہی معاصر اخبار میں دیکھا۔ لکھا تھا جو خواجہ سرا پختونخوا میں قتل ہوتے ہیں‘ وہ گناہ گار (مضمون نگار نے کچھ اور لفظ استعمال کیا۔ گناہ گار اس کا قابل اشاعت ترجمہ ہے) ہوتے ہیں۔ اس لئے قتل کئے جاتے ہیں۔واللہ‘ مسئلہ ہی حل کردیا۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ 22 کروڑ آبادی میں یہی گناہ گار ہیں جو قتل ہو جاتے ہیں۔ الحمدللہ باقی ساری آبادی معصوم قرار پائی۔ سبحان تیری قدرت اور یہ معلوم کرکے اور بھی مسرت ہوئی پختونخوا کو گناہ گاروں کے وجود سے نجات دلانے کی ذمہ داری ”نجی شعبے“ نے سنبھال رکھی ہے۔