دنیا بدل رہی ہے لیکن پاکستانی سیاست کبھی نہیںبدلتی ۔کہنے کو ہم تاریخ کے اہم دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن سیاسی اوراق پر کچھ نیا رقم نہیں ہوتا وہی سیاسی کھینچا تانی جو سالہا سال سے چل رہی ہے اسی کا سیاپا ہوتا ہے جس پر کسی کو افسوس بھی نہیں ہوتا کیونکہ عوام بھی اپنے مسائل سے زیادہ ایوانوں کی راہداریوں میں ہونے والی سازشوں بارے تجسس رکھتے ہیں ۔جسے میڈیائی باوے سیاسی ٹاک شوز میںمزید بڑھا دیتے ہیں اور سنگین سے سنگین مسائل کو بھی یوں الجھا دیتے ہیں کہ وہ اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔عوامی بے پروائی کا فائدہ سیاسی کاریگر اٹھاتے ہیںجو من مانیاں اور نادانیاں کرتے مدت اقتدار گزار دیتے ہیں لیکن سمجھ تو تب آتی ہے جب یہ ریشہ دوانیاں نا قابل برداشت ہو تی ہیں اور ڈھٹائی رسوائی کا طوق بن جاتی ہیں نتیجتاً وہی ہوتاہے جو ہورہا ہے۔۔ایک طرف ماضی کے حکمران مبینہ کرپشن کے الزامات سے بری ہو رہے ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف لائم لائیٹ سے غائب ہو رہی ہے۔۔سازشی بیانیہ مکمل طور پر بے نقاب ہوگیا ہے اور پی ٹی آئی قیادت غصے میں پوچھتی پھر رہی ہے کہ وزیراعظم ہائوس کی گفتگو لیک کیسے ہوئی اور اس طرح آڈیوز کا سامنے آنا سیکیورٹی اداروں کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے جس جھوٹے بیانیے کو لیکر خان صاحب عوام کو گمراہ کر رہے تھے اس کی حقیقت سامنے آنے پربھی کمال ہنر مندی دکھا رہے ہیں ہمیں تو غالب یاد آگئے ۔
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ویسے تو سبھی گفتار کے ہی غازی ہیں کہ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا ۔لہذ ا پہلے بھی پانامہ لیکس اور وکی لیکس کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا تھااور اب بھی آڈیو لیکس پر ردعمل دیکھ لیں کہ جس کی آڈیو لیک ہوتی ہے وہ کمال ڈھٹائی سے میڈیائی سوالوں کے جواب میں یہ کہہ کر چلا جاتا ہے کہ ’’جتھے ایہنے پھٹ کھادے ،ایہہ پیڑا وی جر جاوو ‘ ‘ بس عوام ہی آڈیو لیکس میں دلچسپی لے رہے ہیںحالانکہ ان لیکس نے حکومتی سیٹ اپ میں ہونے والی تبدیلیوں سے یکسر توجہ ہٹا دی ہے اور منہ زور مہنگائی بھلا دی ہے شاید مقصد بھی یہی تھا ۔۔پہلے ارادہ تھاکہ میں بھی دیگر مبصرین کی طرح آڈیو لیکس پر لکھو ں ، مریم نواز کی بریت کو سیاست میں بھونچال قرار دوں اور آڈیو لیکس کو سیکیورٹی خطرات سے جوڑتے ہوئے لکھوں کہ پاکستان کی سلامتی پر بڑے سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں جس طرح سائیبر سیکیورٹی نے معاملات درہم برہم کئے اس طرح یہ بڑے نظام خراب کر سکتا ہے ۔لیکن پھر خیال آیا کہ جو بھی آڈیولیکس ہوئی ہیں ان میں سیاسی بازیگروں کی منافقت کو بے نقاب کیا گیاہے جوپہلے ہو چکے ہیں بس خان صاحب ہی بچے تھے اور ان کی بائیس سالہ شخصیت سازی کو دو آڈیوز نے زمین بوس کر دیا ہے۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ لیول کر دیا گیا ہے تاکہ عوام کے دل سے خان کے لیے ہمدردی اور مقبولیت ختم ہوجائے اور (ن) لیگ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوجائے سردست تو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا مزیدجہاں دیدہ سمجھتے ہیں کہ عوام نہ ہی کسی کو لا سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت گراسکتے ہیں پھر بھی جو شخص بھی یہ کام کر رہا ہے بس حقیقی مسائل سے توجہ ہی ہٹا رہا ہے جبکہ وقت تو حقیقی خطرات بارے سوچنے کا تھا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو دشمنوں میں گھری ہوئی ہے، سبھی کی نظر ہے اور یہ بات عام ہو گئی ہے کہ عوام ناخوش ہیں جبکہ حکمران دھڑا دھڑ قرضے لیتے جا رہے ہیں وہ واپس کیسے ہونگے اگر حکومت پاکستان قرض ادا نہ کر سکی اور خاکم بدہن ملک ڈیفالٹ کر گیا جس کا تذکرہ سبھی کر رہے ہیں تو ہمارے ساتھ کیا ہوگا ؟حالات تو نہیں بدلیں گے ۔۔تھک جائے گا ڈال ڈال کر کنکر خالی مٹکے میں ،پاگل کوا پانی کی امید میں مارا جائے گا ۔
مجھے کہنے دیجیے کہ قول و فعل کے تضاد کا شکار صرف خان صاحب ہی نہیں بلکہ لمحہ موجود کے سبھی سیاستدان ہیں۔ ان کی غریب پروری اور عوامی محبت ایک سی ہے جو کہ لیک ہونے والی آڈیوز سے بھی ثابت ہوچکی ہے بظاہر زبان سے شائستگی ٹپکتی ہے اور شریف النفسی کا لبادھا اوڑھے گھومتے ہیں جبکہ ان کے اعمال کچھ اور ہی داستان بیان کرتے ہیں ۔ایک طرف سادگی کا درس دیتے ہی اور دوسری طرف اپنے محل نما گھروں کے لان میں بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ کس چیز پر ٹیکس لگ گیاہے اور کونسی رہ گئی ہے ۔عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کا بیان اٹھارہ بیس گاڑیوںکے جلوس اور درجنوں گاڈوں کی موجودگی میں دیتے ہیں ،پچاس قسم کے کھانے میز پر سجا کر کھاتے ہیں اور مافیاز کے مطالبے مان کر عوام سے ایک روٹی کھانے کی سکت بھی چھین لیتے ہیں ، اپنے پہناووں کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں کے کے سوٹ بوٹ زیب تن کرتے ہیں مگر عوام کو عاجزی کا سبق دیتے نہیں تھکتے۔یقینا نون لیگ بہت جلد ملک کا کنٹرول سنبھال لے گی کہ پرانی روایت برقرار رکھتے ہوئے میاں صاحب نے گھر والوں کو ہی دلکش عہدے نوازنے شروع کر دیے ہیں ۔سوال تو یہ ہے کہ کیا عوام کو ریلیف ملے گا؟تو آڈیو لیکس کے ذریعے عوام کو پتہ چل گیا ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ بھی وقت ٹپائو اور چل چلائو پالیسی پر عمل پیرا ہے جس پرعوام برہم ہیں جو کسی کے مفاد میں نہیں ۔کیسی بے حسی ہے ! عوام سسک رہے ہیں ،ہر طبقے کے حالات خراب ہو چکے ہیں ،دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیا ہے اس پر یوٹیلٹی اور بجلی کے بلوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں نے عدم برداشت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ ایک دوسرے کو مارنے اور خودکشیوں کا رواج عام ہو گیا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے لیکن الٹا قیمتیں بڑھانے اور تھوڑی بہت جو آسانیاں ہیں انھیں ختم کرنے بارے منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں ۔افسوس ! چہرے بدلتے ہیں کردار نہیں بدلتے ۔۔تبھی تو جب بھی ملکی حالات اور مسائل پر نظردوڑاتے ہیں تو دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ
جو تھے سیاسی گھرانے والے سب ایک نکلے
بجھانے والے جلانے والے سب ایک نکلے
حرام کے رزق میں کوئی امتیاز کیسا ،کہ
کھانیوالے کھلانے والے سب ایک نکلے
اور ہمارے ماضی کی اک عمارت یہ کہہ رہی ہے
بچانے والے گرانے والے سب ایک نکلے