ملکی سیاسی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے سیاستدان اور حکمران آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں اور مہنگائی و بیروزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے آئے روز بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیوجہ سے مہنگائی کا نیا طوفان کھڑا ہوتا ہے ادویات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں جبکہ غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترسنے لگے۔ ایسے حالات میں موجودہ حکومت کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں لہٰذا سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا چکے ہیں اسحاق ڈار نے اپنی پاکستان واپسی کو اللہ کا خاص کرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس دفتر سے نکل کر لندن گئے تھے اسی دفتر میں واپس بلوائے گئے ہیں وہ پانچ روز قبل وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے اسحاق ڈار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اعلی درجے کے منتظم اور فنانس کے امور پر دسترس رکھنے والی شخصیت ہیں ان کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیا ہے اور سٹاک ایکسچینج میں بھی بہتری آئی ہے بتایا جا رہا ہے کہ اکتوبر کے شروع میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی کا امکان ہے دوسری جانب اسحاق ڈار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان 2017ء سے 2023ء تک دنیا کی اٹھارہویں معیشت بننے جا رہا تھا لیکن انھیں کام نہیں کرنے دیا گیا اسحاق ڈار نے اپنے اہداف بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے وہ معاشی زوال کو روکیں گے پھر اس کی سمت ترقی کی طرف موڑ دیں گے پاکستان گزشتہ چار سال سے معاشی بھنور میں پھنسا ہوا ہے جس سے ملک کو نکالنا سب سے بڑا چیلنج ہے اور وہ ان شاء اللہ اس چیلنج پر پورا اتریں گے اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے سے حکومت کو توقع ہے کہ معاشی میدان میں بہتری آئے گی موجودہ اتحادی حکومت نے جب اپریل میں اقتدار سنبھالا تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ برے معاشی حالات تھے بجٹ خسارہ انتہائی بڑھ چکا تھا زرمبادلہ کی کمی تھی آئی ایم ایف سے معاہدہ کھٹائی میں ڈال دیا گیا تھا روس یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں ڈالر بے قابو ہو چکا تھا حکومت کے سامنے دو راستے تھے یا تو اقتدار چھوڑ دے یا پھر مشکل فیصلوں کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نکالے اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مشکل فیصلے کر کے آگے بڑھا جائے لیکن مشکل فیصلوں کے باوجود اقتصادی صورتحال میں فوری تبدیلی ممکن نہ ہو سکی آئی ایم ایف پروگرام بھی تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی اور بجلی کے بلوں میں ایف پی اے سرچارج شامل کرنے پر ملک گیر احتجاج شروع ہو کیا بہرحال حکومت کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اپنا خسارہ کم کرنے کی کوشش کرے مفتاح اسماعیل نے غیر مقبول فیصلے کر کے مشیت کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی. وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اکانومسٹ اور صنعت کار ہیں امید کی جانی چاہیے کہ انکے علم اور تجربے سے وفاقی حکومت استفادہ کرتی رہے گی اور انہیں ایسی ذمہ داری سونپی جائے گی جو ان کے شایان شان ہو اور وہ دلجمعی سے معیشت کو بحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے وزیراعظم شہباز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ جاتے اور واپس آتے ہوئے لندن رکے تو نواز شریف کے سامنے یہ معاملہ بھی رکھا گیا جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ مفتاح اسماعیل کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے استعفیٰ لے کر یہ منصب اسحاق ڈار کو سونپ دیا جائے کہ وہ اپنے قانونی معاملات کا دفاع کرنے کیلئے بھرپور تیاری کرچکے ہیں وزیراعظم شہباز شریف انہیں اپنے ساتھ لے آئے اس طرح اتحادی حکومت کو ایک مضبوط وزیر خزانہ میسر آ گیا ہے بہرحال اسحاق ڈار وطن واپس پہنچ چکے ہیں اور وزارت خزانہ کا قلمدان بھی سنبھال چکے ہیں اب انہیں اس مشکل ترین وقت میں بڑے اہم معاشی فیصلے کرنا ہوں گے اسحاق ڈار کا دعویٰ ہے جب وہ وزارت خزانہ چھوڑ کر گئے تو ملک اقتصادی طور پر بہت مضبوط تھا کیا وہ اب ایسے اقدامات کی پوزیشن میں ہیں کہ ملک ایک بار پھر اقتصادی طور پر مستحکم ہوجائے انکے سامنے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی میں کمی کا ہے جس میں حکومتی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے بہرکیف ماہرین معیشت اسحاق ڈار کو امید کی ایک کرن قرار دے رہے ہیں اللہ کرے واقعی ایسا ہی ہو اور وہ مہنگائی کی ماری قوم کو بڑا ریلیف دینے میں کامیاب ہو جائیں۔ آمین
امید کی کرن: اسحاق ڈار
Oct 02, 2022