”ہم جیسے ہیں ویسے دکھتے نہیں“

وجودقلم.... اکمل شہزاد
Akmal.journalist@gmail.com
تمام ممالک میں بچوں کی تربیت کا آغازادب و آداب سے کیا جاتا ہے۔ سونے جاگنے کھانے پینے رہنے سکول آنے اور گھر جانے بات کرنے اور بات کا جواب دینے کے آداب سے تعلیم کا آغاز ہو تا ہے۔ بچے کی سکولنگ کے بعد ایک دم سے اس میں تبدیلی نظر آتی ہے وہ وقت پر سوتا کھانا کھاتا کپڑے تبدیل کرتا اور اپنے تمام سامان کو ترتیب کے ساتھ رکھنا سیکھ جاتا ہے اس کے بعدسچ بولنا اور ایمانداری سے کام کے فوائد پر تربیت دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج یورپین ممالک میں جو آداب گوروں کے بچوں میں پائے جاتے ہیں وہ ایشیائ یا افریقی ممالک میں نظر نہیں آتے، جب یہی نسل جوان ہوتی ہے تو وہ بہتر ین آداب کے ساتھ اپنی نوکری اور کاروبار کرتے اور ایمانداری کے ساتھ کئے وعدے پورے کرتے ہیں اس طر ح انہوں دنیا میں بہترین بزنس مین، بہترین سائنس دان، بہترین آرٹسٹ، بہترین ججز اور ہرشعبے میں ترقی سے پہچان بنائی، آپ میں ہر کسی سے یہ سنا ہے کہ گورے فراڈ نہیں کرتے وہاں عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے، دھوکہ نہیں دیتے، نوسربازی یا فراڈ کا کوئی تصور نہیں ہے، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ یہ پاکستان نہیں ہے جہاں جس کا جو جی چاہے کرے یہاں قانون و قواعد موجود ہیں اب معلوم نہیں اس نے پاکستان کی تعریف کی یا پھر آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی، ہم بچوں کی بہترین تربیت نہیں کر سکتے، بچوں کو بہترین یکساں تعلیمی نصاب نہیں دے سکتے کیوں سوال تو بنتا ہے کیا یہ ہمارے حکمران جن میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے انگلینڈ، یورپ، امریکہ یا سعودی عرب کا دورہ نہ کیا ہو ایا وہاں پر رہائش نہ رکھی ہو، کیا یہ وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی نہیں دیکھتے، ان کی تعلیم ان کے ہسپتال، سکول وکالجز یونیورسٹیاں،دفاتر، زرعی نظام، صنعت،کاروبار پر نظر نہیں پڑتی کیا وہاں یہ وہاں رہائش پذیر افراد سے ملاقات نہیں کرتے ہم خود سے کچھ نہیں کرسکتے تو کاپی تو کر سکتے ہیں جس کے دنیا بھر میں مشہور ہیں کیون ان جیسی تعلیم، ترقی، صنعت،کاروبار یہاں نہیں ہو سکتا، کیوں ہم انصاف پر مبنی فیصلے نہیں کرسکتے، بات کہاں سے نکلی اور کہاں چلی گئی، ملک میں آئی میری پسندیدہ ادکارہ انجلیناجولی نے سیلاب کی صورتحال پر مدد کیلئے پہلے دورہ پاکستان کیا یہ ابھی کی نہیں 13سال قبل کی بات ہے،واپسی پر انجلینا جولی نے اقوام متحدہ میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی، رپورٹ میں چند اہم باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں،اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوا جب میرے سامنے حکومت کے بااثر افراد سیلاب سے متاثرین کو دھکے دیکر کر مجھ سے ملنے نہیں دے رہے تھے، مجھے اس وقت اور تکلیف ہوئی جب پاکستان کے وزیراعظم نے یہ خواہش ظاہر کی اور مجبور کیا کہ میری فیملی کے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں ان کی بے چینی دور کروں، میرے انکار کے باوجود وزیراعظم کی فیملی مجھ سے ملنے کیلئے ملتان سے ایک خصوصی طیارے میں آئی اسلام آباد آئی اور میرے لئے قیمتی تحائف بھی لائی، وزیراعظم کی فیملی نے میرے لئے کئی اقسام کے طعام میری دعوت کی، ڈائننگ ٹیبل پر انواع اقسام کے کھانے دیکھ کر مجھے شدید رنج ہوا کہ ملک میں لوگ فاقوں سے مر رہے تھے اور یہ کھانا کئی سو لوگوں کیلئے کافی تھا جو صرف آٹے کے ایک تھیلے اور پانی کی ایک چھوٹی بوتل کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دیکر ہماری ٹیم سے حاصل کرنے کے خواہشمند تھے،مجھے حیرت ہوئی کہ ایک طرف بھوک، غربت اور بد حالی تھی اور دوسری جانب وزیراعظم ہاو¿س اور کئی سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت، ٹھاٹھ باٹھ، حکمرانوں کی عیاشیاں تھیں، یورپ والوں کو حیران کرنے کیلئے کافی تھا،انجلینا جولی نے اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ امداد مانگنے سے پہلے شاہی پروٹوکول، عیاشیاں اور فضول اخراجات ختم کریں،اس پورے دورے کے دوران انجلینا جولی نے پاکستان کے میڈیا اور فوٹو سیشن سے دور رہنا پسند کیا،اس بات کو آج بارہ سال ہونے کو آئے ہیں اور اس رپورٹ سے پوری دنیا میں پاکستان کا وقار مجروح ہوا مگر ہم آج بھی اسی روش پر قائم ہیں، آج بھی وہی صورت حال ہے، ووٹر بھوکے مر رہے ہیں اور حکمرانوں کی عیاشیاں جاری وساری ہیں، یہی حکمران رجیم چینج میں اربوں روپے کے عوض ضمیر خرید کرتے رہے مگر ان کے پاس عوام کو دینے کیلئے ایک دھیلا بھی نہیں ہے، مزے کی بات یہ کہ اس کے بعد کا انجلینا کا دورہ بڑا مختلف رہا، اب جب سیلاب زدگان کی امداد ی سروے کیا گیا تو ہم نے اپنے کو ٹھیک کرنے کی بجائے انجلینا سے بدلہ لیا اس کو کوئی اضافی پروٹوکول، دعوتیں اور مزے نہیں کرائے کیونکہ اس نے پہلے واپس جا کر حقیقت بیان کر دی جس کے بعد ہم نے بھی فیصلہ کیا اب کے آ پھر دیکھتے ہیں۱!

ای پیپر دی نیشن