سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
جس حالت میں آج پاکستان موجود ہے ،اور جن حالات کا سامنا ہمیں ہے دنیا کے کوئی 8سے 10ممالک ان حالات سے ہو کر گزرے ہیں۔اس قسم کی کیفیات کا سامنا ان ممالک نے بھی کیا ہے ،ان ممالک میں لا طینی امریکہ کے ممالک شامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایشیا ئ کے ممالک بھی اسی قسم کے حالات کا شکار رہے ہیں۔ترکی نے بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کیا ہے لیکن کہیں بھی الیکشن کو نہیں روکا گیا ہے ،لیکشن کو تو حالت جنگ میں بھی نہیں روکنا چاہیے عوامی منڈیٹ کی حامل حکومتیں ہی عوامی مسائل اور حتیٰ کہ جنگ میں بھی درست طور پر بہتر کا رکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔جہاں تک ملک کی موجودہ اقتصادی حالت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی ہم حالت جنگ میں ہی ہیں۔اور اقتصادی بد حالی کے اپنی اپنی حد تک ہم سب ہی ذمہ دار ہیں۔لیکن اس معاشی بد حالی کے باوجود الیکشن کو روکا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ الیکشن ہی وہ ذریعہ ہے جس سے کہ نئی قیادت سامنے آئے گی اور یقینا نئی قیادت کے پاس بہت سے نئے خیالات بھی ہوں گے اور پلان ہو گا کہ ملک کی اس معاشی بد حالی کو خوشحالی میں کیسے بدلا جاسکتا ہے ؟ یہ کو ئی ناممکن بات نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا عین ممکن ہے دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جس میں کہ قیادت آئی اور اس نے اپنے ملک کی بد حالی کو خوشحالی میں بدل دیا۔لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ خرابیاں دو دن میں پیدا نہیں ہو ئیں ہیں اور نہ ہی دو دن میں ختم کی جاسکتی ہیں ،یہ سالوں کی غلطیوں ،کو تا ہیوں اور غفلتوں کا نتیجہ ہے اور اس کو ٹھیک کرنے میں بھی وقت لگے گا لیکن یہ اشد ضروری ہے کہ ملک کو کم از کم درست سمت میں تو گامزن کر دیا جائے۔یہ اس وقت اشد ضروری ہے کہ ملک کو معاشی اور سیاسی گرداب سے نکالا جائے۔قومی قیادت ہی ملک کو اس بحران سے نکال سکتی ہے۔الیکشن بروقت ہونے چاہیے ،بروقت ہو تے ہوئے دیکھائی تو نہیں دے رہے ہیں لیکن جلد از جلد ہونے چاہیے ،یہ بات نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ الیکشن ہوں اور عوامی اعتماد رکھنے والی ایک حکومت بر سر اقتدار آئے اور اس سے خو د بخود ہی معاشی اعتماد میں اضافہ ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف بنانے کے لیے بھی کام کیا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو زبر دستی الیکشن سے باہر کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔الیکشن کی شفافیت پر سوالات نہیں اٹھنے چاہیے۔لیول پلئنگ فیلڈ سب کو ملنی چاہیے اس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔اس طرح کا کوئی بھی اقدام پورے کے پورے الیکشن پراسیس کو ناکارہ کر دے گا اور پھر الیکشن کا ہونا یا نہ ہو نا بے سود ہو جائے گا۔ظاہر ہے کہ ملک کے 24کروڑ عوام ہیں اور ان سب کی رائے ایک جیسی نہیں ہو سکتی ہے سب کی آرا مختلف ہوں گی کیونکہ ملک میں مختلف قومیتوں اور صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں اور سوچ اور رائے کا یہ فرق ہی جمہوریت کا حسن ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک کثیر الجماعتی نظام رائج ہے جو کہ عوام کو مختلف پارٹیاں بنانے کی اور اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دینے کی آزادی دیتا ہے۔جتنی بھی پرانی جمہوریتیں ہیں ،ان میں دو پارٹیاں ہی کافی سمجھی جاتی ہیں لیکن چونکہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی اتنی بلند نہیں ہے اس لیے ہمارے ملک میں ہم ابھی سیاسی طور پر بھی پیچھے ہیں۔ہمیں ملک میں تعلیم عام کرنے پر کام کرنا چاہیے ،تعلیم کے ذریعے ہی ملک میں پائی جانے والی سیاسی دراڑ کو پر کیا جاسکتا ہے۔ایسی سیاسی خلیج کا حل وہ تعلیم ہی ہے جو کہ سیاسی تقسیم جس نے ملک کو آدھے میں تقسیم کیا ہوا ہے ،اس کا حل نکال سکے اور قوم کو قوم کی شکل دینے میں ہماری مدد کرے۔جتنا خرچ تعلیم پر کریں گے ،اتنا ہی ہمارے انسانی وسائل بہتر ہو ں گے اور اتنا ہی ہماری کاروباری اور صنعتی صلاحیت میں بھی اضافہ ہو گا۔ہمیں اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر تو آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے اور ہم اسی وجہ سے بہت پیچھے رہتے چلے جا رہے ہیں۔جو قوم زیادہ ہنر مند ہوتی ہے وہ قوم زیادہ با صلاحیت ہو تی ہے اور یہ امر قوموں کے عروج اور زوال میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن ہم نے تو سرے سے انسانی وسائل کی بہتری پر توجہ ہی نہیں دی ہے لیکن اب ہمیں اس طرف تیزی سے پیشرفت کرنے کی ضرورت ہے۔الیکشن کا دور دورہ ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی وسائل کو ترقی دینے کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں ایک جامع روڈ میپ دینے کی ضرورت ہے اگر کوئی سیاسی جماعت اس حوالے سے کام کرے اور کامیابی حاصل کرے تو یہ ملک اور قوم کی بڑی خدمت ہو گی۔