خالد بہزاد ہاشمی
khalidbehzad11@gmail.com
قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا تین روزہ812واں سالانہ عرس مبارک 12 تا 14 ربیع الاوّل بمطابق 28 تا30 ستمبر مہر ولی نئی دہلی میں نہایت تزک و احتشام سے منایا جا رہا ہے۔ اتوار یکم اکتوبر تک تقریبات جاری رہیں گی۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ حضرت خواجہ غریب نواز‘ سلطان الہند‘ خواجہ خواجگان‘ خواجہ بزرگ‘ ہند الولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے جانشین‘ محبوب خلیفہ اکبر اور سجادہ نشین ہیں اور حضرت خواجہ غریب نواز نے دہلی کی ولایت اور خلافت کا تاج آپکے سر پروقار پر رکھا تھا‘ حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے حضرت شیخ العالم‘ شیخ کبیر‘ اجودھن کے درویش‘ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کو خلافت عطا فرمائی جبکہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے اپنے لاڈلے خلیفہ محبوب الٰہی‘ سلطان المشائخ‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء(نئی دہلی) کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ یوں سلسلہ چشتیہ کے یہ چار چاند اور سورج اجمیر شریف دہلی اور پاکپتن شریف کو اپنی روحانی کرنوں سے منور کر رہے ہیں اور تلاش حق کے متلاشی بندگان خدا صدیوں سے ان سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
اس وقت درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی پر سجادگان سید سیف الرحمن قطبی نیازی، سید مہدی حسین قطبی نیازی خدمات انجام دے رہے ہیں، قبل ازیں سجادہ نشین دیوان سید بدر صمدانی قطبی نیازی مرحوم اور ان کے بھائی ڈاکٹر حبیب الرحمن قطبی نیازی مرحوم خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اور ان کی نگارشات نوائے وقت گروپ میں بااہتمام شائع ہوتی رہی ہیں۔ انکا خانوادہ حضرت قطب صاحب کی حیات مبارکہ سے ہی خدمات پر مامور ہے۔ محترم دیوان بدر صمدانی مرحوم اور ڈاکٹر حبیب الرحمن قطبی نیازی مرحوم ہمیشہ ہی اس گناہ گار سے بہت شفقت فرماتے رہے۔ وہ دہلی مرحوم کی مٹتی تہذیب کی آخری نشانیوں میں سے ایک تھے۔ وہی نستعلیق لہجہ شرافت نجابت‘ شائستگی‘ دھیما پن اور نام و نمود اور شہرت سے دوری‘ اب تو یہ سب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ دیوان بدر صمدنی مرحوم نے چند سال قبل قطب صاحب کے سالانہ عرس مبارک پر کاک (درگاہ شریف کی خصوصی روٹی)، تبرک اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی پر سید محبوب الرحمن نیازی کی تحریر کردہ کتاب تذکرہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی(آئنہ ملفوظات) بھی بھجوائی تھی یہ کتاب میں نے اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ فیملی میگزین نوائے وقت میں قسط وار بھی شائع کی تھی۔ مصنف قبل ازیں1980ءمیں اپنی تصنیف امام السالکین تحریر کر چکے تھے۔ انہوں نے آئنہ ملفوظات دیوان سید بدر صمدانی مرحوم کی فرمائش پر تحریر کی تھی۔ درگاہ شریف دہلی سے آنے والی یہ خوشبو دار کاک (روٹی) مہینہ سے زائد نرم اور تازہ رہی تھی اور میری مرحومہ اہلیہ فردوس ناہید بھی بقید حیات تھی اور ہم نے یہ احباب میں بطور تبرک تقسیم کی تھی۔ تبرک لانے کا اعزاز ٹاﺅن شپ میں مقیم ہمارے اور برادرم وقار اشرف (فیملی میگزین) کے مشترکہ دوست سید ریحان شاہ کے فرسٹ کزن سید غیاثت الدین کو ہوا تھا جو نئی دہلی میں مرزا غالب کی حویلی کے نزدیک گلی قاسم جان نیا محلہ بلی ماراں میں مقیم ہیں۔
درگاہ قطب صاحب کے چار داخلی دروازے ہیں مغربی رویہ پہلے دروازے شرقی دروازے اور شمالی دروازے (نزد مجلس خانہ) پر فارسی میں خط ثلث اور دیگر خطوط میں توصیف و تعمیر اور نام کندہ ہیں۔ درگاہ شریف کے احاطے کے دروازے کی سنگ مرمر کی جالی دار دیوار مولانا فخر الدین کے مزار سے ملحق ہے۔ حضرت قطب صاحب کے مزار کے سرہانے چینی کے کام کی دیوار پر کلمہ طیبہ تحریر ہے اور تاریخ وفات 14 ربیع الاوّل 633ھ بمطابق 1335ءبروز سوموار تحریر ہے۔ قطب صاحب کے مزار کے پائنتی سنگ مر مر کے کٹہرے میں حضرت مولانا قاضی حمید الدین ناگوری کا مزار مبارک ہے۔ قطب صاحب کے مزار کے قریب حاجی حرمین کا مزار بھی ہے۔ درگاہ کے قریب دیگر مزارات میں مولانا محمد فخر الدین‘ جواہر خان‘ محلدار خان‘ نواب ضابطہ خان‘ درگاہ کے پہلے احاطہ میں معتمد خان کا مقبرہ‘ احاطہ کے باہر درگاہ کے مغربی دروازے سے متصل شمال کی طرف مراد بخش کا مقبرہ ہے۔
قطب الاقطاب کا خطاب
آپ کو قطب الاقطاب کا لقب حضرت خواجہ غریب نواز نے عطا فرمایا تھا۔ آپ 569ءمیں پیدا ہوئے جبکہ اس بارے میں دیگر تواریخ بھی ہیں۔ محض ڈیڑھ سال کی عمر میں آپ یتیم ہو گئے۔ اور آپکی تربیت آپکی قابل فخر والدہ نے نہایت محنت سے ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہوئے سرانجام دیں۔
کاکی کہلانے کی وجہ
دہلی میں آپ عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے اور ظاہری دنیاوی اشیاءسے لاتعلقی اختیار کی۔ گھر میں فاقہ ہونے لگا تو آپ کی اہلیہ نے آپ کے علم میں لائے بغیر پڑوسی بقال مشرف الدین کی اہلیہ سے ادھار لینا شروع کر دیا جو بعدازاں لوٹا دیتیں ایک دن بقال کی بیوی نے طعنہ دیا کہ اگر میں قرض نہ دوں تو گھر کیسے چلے‘ اہلیہ نے قرض لینا بند کیا‘ قطب صاحب کے علم میں بات آئی تو اہلیہ سے فرمایا کہ جب ضرورت ہو حجرہ کی طاق سے بسم اللہ کہہ کر جتنی روٹیاں چاہو نکال لیا کرو۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کرتیں ایک روز انہوں نے بقال کی بیوی کو بتا دیا اس دن سے کاک (روٹیاں) نکلنا بند ہو گئیں نان کو کاک بھی کہا جاتا ہے۔
اُستاد محترم کا مرتبہ حضرت خضر علیہ اسلام نے بارہ سال تک تعلیم دی
آپ کے استاد محترم حضرت قاضی حمید الدین ناگوری کا تعلق بخارا کے شاہی خاندان سے تھا اور آپکے والد ماجد اللہ محمود بخارا کے بادشاہ تھے آپکو قاضی حمید الدین ناگوری کا خطاب مدینہ منورہ میں بارگاہ رسالت سے عطا ہوا تھا۔ آپ اپنے اہل و عیال کو کرمان میں چھوڑ کر والد صاحب کے ہمراہ تلاش حق میں نکلے۔ اسی اثناءمیں حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کو حکم ہوا کہ محمد بن عطا یعنی قاضی صاحب کو علم لدونی کی تعلیم دو‘ حضرت خواجہ خضر علیہ السلام نے آپ کو بارہ سال تک اپنی خدمت میں رکھ کر تعلیم دی اور پھر بغداد روانہ کیا۔
بابا فرید مسعود گنج شکر ؒکو شرف بیعت بخشنا
قطب صاحب 1194ءمیں ملتان شریف لائے۔ ان دنوں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر مولانا منہاج الدین ترمذی کی مسجد میں قیام پذیر تھے اور کتاب ”نافع“ پڑھ رہے تھے اسی اثناءمیں حضرت قطب صاحب تشریف لائے۔ جنہیں دیکھ کر حضرت بابا صاحب کی قلبی کیفیت بدل گئی اور آپ بے اختیار انکے احترام میں کھڑے ہو کر آداب بجا لائے۔ اسی دوران حضرت قطب صاحب نے دریافت فرمایا کہ تم کیا پڑھتے ہیں۔ بابا صاحب نے نہایت ادب سے جواب دیا کہ ”کتاب نافع“ یہ سن کر قطب صاحب نے بے ساختہ کہا کہ جانتے ہو کہ تمہیں نافع سے نفع ہو گا۔
حضرت بابا صاحب نے جواب دیا کہ مجھے تو آپ کی قدم بوسی ہی نافع ہو گی۔ حضرت بابا صاحب نے اپنا سر قطب صاحب کے قدموں میں رکھ دیا۔ آپ پہلی ہی مجلس میں حضرت قطب صاحب کے بیعت ہوئے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءنے اس وقت بابا صاحب کی عمر پندرہ سال بتائی ہے۔
خواجہ غریب نواز کی دعا‘ خدایا فرید کو قبول فرما
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر دہلی میں قطب صاحب کی خانقاہ پر عبادت و مجاہدات میں مشغول تھے کہ اسی دوران حضرت خواجہ غریب نواز وہاں تشریف لائے۔ حضرت قطب صاحب نے تمام مریدوں کو آپ کے حضور پیش کیا تاکہ وہ آپ سے فیض یاب ہوں۔ آپ نے سب کو روحانی دولت سے سرفراز فرمایا۔ پھر خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب سے دریافت فرمایا۔ تمہارے مریدوں میں سے کوئی نعمت پانے سے محروم تو نہیں رہ گیا۔ قطب صاحب نے کہا کہ جی! مسعود رہ گیا ہے وہ چلہ میں بیٹھا ہے۔ یہ سن کر حضرت خواجہ غریب نواز کھڑے ہو گئے اور کہا کہ آ¶ چل کر اسے دیکھتے ہیں آپ نے چلہ کا دروازہ کھولا‘ حضرت بابا صاحب اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ وہ تعظیم کیلئے بھی کھڑے ہونے سے قاصر رہے اور عاجزی و بے بسی میں پرنم آنکھوں کیساتھ اپنا سر نیاز زمین پر رکھ دیا۔ حضرت بابا فرید کا یہ حال دیکھ کر حضرت خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب سے فرمایا کہ اے قطب! کب تک اسے مجاہدے کی آگ میں گھلا¶ گے آ¶! اسے کچھ عطا کریں یہ کہہ کر حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت بابا فرید گنج شکر کا دائیاں جبکہ قطب صاحب نے بائیاں بازو پکڑ کر اٹھایا اور حضرت خواجہ غریب نواز نے آسمان کی جانب منہ کرکے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کیلئے دعا فرمائی۔ خدایا! ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا۔ غیب سے ندا آئی کہ ہم نے فرید کو قبول کیا۔ یہ وحید عصر ہو گا اس موقع پر حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بابا فرید صاحب کے بارے میں پیش گوئی فرمائی کہ قطب! بڑے شہباز کو دام میں لائے۔ اسکا آشیانہ سدرة المنتیٰ ہو گا“
اولیاءکرام کی سفارت
اس گناہ گار کا تعلق بھی حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے اجل خلیفہ حضرت جمال الدین ہانسوی (ہانسی ضلع حصار‘ ہریانہ) کے خانوادہ سے ہے‘ وہاں درگاہ پر حضرت بابا صاحب بارہ تیرہ سال مقیم بھی رہے اور شادی بھی وہیں کی۔ حضرت جمال الدین ہانسوی‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے اتالیق بھی تھے اور جب حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے انہیں خلافت عطا فرمائی تو مہر لگانے کیلئے حضرت جمال الدین ہانسوی کے پاس روانہ کیا تھا۔ اس حوالے سے حضرت قطب صاحب سے بھی گہری عقیدت ہے‘ یہاں مجھے برادر محترم دیوان سید طاہر نظامی سجادہ نشین و گدی نشین حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکا فرمان یاد آجاتا ہے جو وہ اس گناہ گار کے بارے میں اکثر فرماتے ہیں کہ آپ کو ہندوستان کے اولیاءکرام نے پاکستان میں اپنا سفیر مقرر فرمایا ہے۔ یہ سن کر جو روحانی مسرت ہوتی ہے اسکا بیان مشکل ہے۔
اولیاءمسجد کا منفرد اعزاز
درگاہ شریف میں ایک مختصر احاطہ میں وہ ”اولیاءمسجد“ بھی موجود ہے جہاں حضرت خواجہ غریب نواز نے دائیں‘ درمیان میں قطب صاحب اور بائیں حضرت بابا فرید گنج شکر نے اکٹھے نماز ادا کی تھی۔ اسی مقام پر تین مصلے بنا دئیے گئے ہیں اس اولیاءمسجد میں عبادت یا نفل ادا کرنا بہت سعادت اور برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے اور یہاں زائرین کا اژدھام رہتا ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے تین آفتابوں کی بیک وقت نماز ادا کرنے کی سعادت بھی ہندوستان و پاکستان میں صرف اس اولیاءمسجد کو ہی حاصل ہے۔
درگاہ کی توڑ پھوڑپر گاندھی کامعافی مانگنا
قیام پاکستان کے وقت شرپسند اور مذہبی جنونیوں نے آپکی درگاہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا‘ جس سے ناصرف مسلمانوں بلکہ قطب صاحب سے عقیدت رکھنے والے غیر مسلموں کی بھی سخت دل آزاری ہوئی۔ اس موقع پر مہاتما گاندھی درگاہ قطب صاحب آئے اور ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے دہلی والوں کی طرف سے حضرت قطب صاحب سے معافی مانگی اور درگاہ شریف کی دوبارہ تعمیر و مرمت کرائی۔انتظام خانقاہ کیلئے دائی صاحبہ کو اوش سے بلایا ۔درگاہ کے صحن میں حضرت قطب صاحب کی دائی صاحبہ اور اہلیہ محترمہ کے مزارات بھی ہیں۔ آپ نے اوش سے اپنی دائی صاحبہ کو خاص طورپر خانقاہ کا انتظام سنبھالنے کیلئے بلایا تھا۔
شکم مادر میں اللہ تعالیٰ کا ورد
آپکی ولادت باسعادت سے قبل ہی آپکی روحانی عظمت‘ بزرگی اور صالح ہونے کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے‘ جس کا اظہار مختلف اشکال میں ہوتا‘ آپکی قابل فخر والدہ محترمہ فرماتی ہیں ”دوران حمل جب میں تہجد کی نماز پڑھنے کیلئے اٹھتی تو میرے شکم میں سے ذکر (اللہ اللہ) کی آواز سننے میں آتی‘ یہ آواز ایک ساعت کیلئے رہتی۔
پیدائش کے وقت سر مبارک سجدے میں سارا گھر بقہ نور‘ والدہ سمجھیں سورج نکل آیا
جب آپ اس عالم جاودانی میں نصف شب کو جلوہ افروز ہوئے تو ایک نور نے سارے گھر کو روشن کر دیا اور سارا گھر بقہ نور بن کر جگمگا اٹھا‘ اس عالم میں آپکی والدہ محترمہ حیران تھیں انہیں خیال گزرا کہ سورج نکل آیا‘ وہ کیا دیکھتی ہیں کہ انکے نوزائیدہ فرزند ارجمند کا سر مبارک سجدے میں ہے اور اپنی ننھی زبان مبارک سے اللہ اللہ کا ذکر فرما رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب ننھے قطب صاحب نے اپنا سر مبارک سجدے سے اٹھایا تو وہ نور بتدریج کم ہوتا گیا۔ انکی والدہ محترمہ کی حیرانی برقرار تھی جس کا جواب غیب کی اس آواز سے آیا!
”ایں نور کہ دیدی سرّے بود از اسرار الہٰی کہ اکنوں در دل فرزندت نہادیم“
ترجمہ: یہ نور جو تو نے دیکھا ہے‘ اسرار الہٰی میں سے ایک ہے‘ جس کو اب ہم نے تیرے فرزند کے دل میں متمکن کر دیا ہے‘
خواب میں آفتاب کا حضرت ناگوری کے گھر قیام کرنے کا بتانا
قطب صاحب کی دلی آمد سے قبل آپ کے استاد حضرت قاضی حمید الدین ناگوری خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آفتاب جہاں تاب نے دہلی میں آکر مملکت کو روشن کر دیا ہے اور وہ آفتاب انکے گھر آکر کہتا ہے کہ میں تیرے گھر میں رہوں گا‘ جب انہوں نے اس خواب کی تعبیر لی تو آشکارا ہوا کہ آفتاب سے مراد وہ ولی کامل قطب صاحب ہیں جو دہلی میں رونق افروز اور انکے گھر میں قیام پذیر ہوں گے۔
ننھے قطب صاحب کی رسم بسم اللہ خوانی
جب حضرت خواجہ غریب نواز نے آپکی تختی لکھنا چاہی
قطب صاحب کی رسم بسم اللہ خوانی کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے‘ قبل ازیں بچے‘ بچیوں کی چار سال‘ چار ماہ‘ چار دن ہونے پر باقاعدہ طور پر قرآن پاک بڑھانے کیلئے بسم اللہ خوانی کی تقاریب ہوا کرتیں جن کا بہت اہتمام ہوتا۔ اس گناہ گار کے والد مرحوم ڈاکٹر سعید الدین ہاشمی اور والدہ مرحومہ آپا جان بھی سب بچوں کی رسم بسم اللہ خوانی بہت اہتمام سے کرایا کرتے۔ چھوٹی بہن اور بھانجے ساجد محمود صدیقی کے لئے چاندی کی خاندانی اشرفیوں سے بسم اللہ شریف کی یہ تختی میں نے بھی بنوائی تھی۔ چاندی کی چھوٹی تختی پر بسم اللہ لکھوائی جاتی جو تقریب میں بچے/ بچی سے پڑھائی جاتی جب قطب صاحب کی عمر مبارک چار سال چار ماہ چار دن ہوئی تو آپکی والدہ محترمہ نے اوش شہر میں آپکی بسم اللہ کی تقریب منعقد کرنا چاہی‘ حسن اتفاق سے ان دنوں حضرت خواجہ غریب نواز‘ سلطان الہند‘ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری بھی اوش تشریف لائے ہوئے تھے۔ آپکی والدہ محترمہ نے حضرت خواجہ غریب نواز کو لخت جگر قطب صاحب کی بسم اللہ پڑھوانے کیلئے دعوت سعادت دی‘ حضرت خواجہ غریب نواز دعوت قبول کرکے تشریف لائے اور رسم بسم اللہ کی تقریب میں حضرت قطب صاحب کی تختی لکھنا چاہی تو ایسے میں غیب سے ندا اور صدا آئی!
”اے خواجہ‘ ابھی لکھنے میں توقف کرو‘ قاضی حمید الدین ناگوری آتا ہے‘ وہ ہمارے قطب کی تختی لکھے گا اور تعلیم دے گا“ غیب کی صدا سن کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رک گئے اور اسی اثناءمیں حکم ربی سے حضرت قاضی حمید الدین ناگوری تشریف لاتے ہیں اور حضرت خواجہ غریب نواز نے تختی انکی خدمت میں پیش کر دی۔ اب قاضی حمید الدین ناگوری نے سوا چار سالہ قطب صاحب سے دریافت فرمایا کہ بتا¶! تختی پر کیا لکھیں۔ اب آپ اس سوا چار سالہ ننھے قطب صاحب کا تاریخی جواب بھی سن لیں۔
سُب±حٰنَ الَّذِی±ٓ اَس±رٰی بِعَب±دِہ لَی±لًا مِّنَ ال±مَس±جِدِ ال±حَرَامِo یہ سن کر حضرت قاضی حمید الدین ناگوری سخت مستجب اور حیراں ہوئے اور آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ میاں صاحبزادے یہ تو پندرھویں سپارہ میں ہے‘ تم نے قرآن پاک کس سے پڑھا ہے؟اب آپ سوا چار سالہ قطب صاحب کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں! بہت معصومیت سے گویا ہوئے‘”میری والدہ ماجدہ کو پندرہ سپارے یاد ہیں‘ وہ میں نے شکم مادر میں حق تعالیٰ کی تعلیم سے یاد کر لئے“یہ جواب سن کر حضرت قاضی حمید الدین ناگوری نے قطب صاحب کی تختی پر لکھا: سُب±حٰنَ الَّذِی±ٓ اَس±رٰی بِعَب±دِہ لَی±لًاo اِلٰی آخِر السُو±رة حضرت سلطان الہند جیسا استاد محترم اور حضرت قطب صاحب جیسا شاگرد‘ حضرت خواجہ غریب نواز نے آپکو محض چار یوم میں قرآن پاک یاد کرا دیا۔
قطب الدین خدا کا دوست
حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ انہوں نے متواتر چالیس روز تک اللہ کے پیارے نبی بمعہ ارواح مشائخ کرام خواب میں یہ ارشاد فرماتے دیکھا کہ:”اے معین الدین! قطب الدین خدا کا دوست ہے۔ اس کو خلافت دے اور خرقہ¿ گلیم پہنا۔“
پھر خواب میں غریب نواز فرماتے ہیں:
”آج رات میں نے حضرت ذوالجلال قادر باکمال کو خواب میں دیکھا اور مجھے حکم دیا گیا کہ: ”اے معین الدین! قطب الدین بختیار کاکی کو درویشی کا خرقہ اور خلافت عطا کر، کیونکہ قطب الدین ہمارا دوست اور محمد کا بھی دوست ہے، ہم نے اسے برگزیدہ بندہ بنا دیا ہے اور اس کا نام اپنے دوستوں میں درج کیا ہے“۔چنانچہ حضرت غریب نوازنے 585 ہجری میںمسجد خواجہ ابواللیث سمرقندی میں قطب صاحب کو بیعت سے مشرف فرمایا۔ا س دووران حضرت شہاب الدین سہروردی، شیخ دا¶د کرمانی، شیخ برہان الدین محمدچشتی اور شیخ تاج الدین محمد اصفہانی بھی موجود تھے۔
مدفن کیلئے جگہ خریدنا:
وصال سے قبل آپ موجودہ مدفن کی بے آباد جگہ تشریف لائے اور سوچ و بچار میں مبتلا ہوئے، احباب کے پوچھنے پر فرمایا مجھے اس زمین سے دلوں کی بُو آتی ہے، زمین کے مالک کو حاضر کرو۔ چنانچہ آپ نے زر خاص سے یہ زمین مالک سے خرید لی اور اسے اپنے مدفن کیلئے مقرر فرمایا۔
تخت سلیمان کا آپکے مدفن پر اترنا:
آپ کے جائے مدفن کی فضیلت خاص کے بارے میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت اڑتے اڑتے یہاں پہنچا تو حضرت سلیمان یہ دیکھ کر حیران ہوئے اس جگہ عرش سے فرش تک نور ہی نور ہے اور فرشتے آسمان سے نور کے طبق لا کر اس زمین پر ڈال رہے ہیں۔ آپ نے فرشتوں سے پوچھا کہ ایسا بابرکت مقام کس برگزیدہ ہستی کا ہے تو انہوں نے بتایا:
”یہ سرزمین مسکن و مدفن اللہ کے محبوب خواجہ قطب الدین کا ہے جو کہ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد کی امت میں پیدا ہو گا اور اس جگہ آسودہ خواب ہونگے۔“ کچی لحد کی وصیت، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر سر پر مٹی اٹھا کر ڈالتے رہے:حضرت قطب صاحب کی لحد کچی ہے اور اس میں کوئی اینٹ اور پتھر استعمال نہیں ہوئے کیونکہ حضرت قطب صاحب کا یہی حکم تھا کہ انکی لحد کچی رہنے دی جائے۔ موجودہ قبر مبارک کے بارے میں بھی ان کے محبوب خلیفہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے ان کی لحد پر حاضر ہو کر بذریعہ کشف ان سے کئی مرتبہ اجازت طلب فرمائی۔ جس کے بعد انہوں نے حضرت بابا صاحب کو نماز عصر سے نماز مغرب تک حوض شمسی سے ازخود مٹی لا کر وہاں ڈالنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور حضرت شیخ العالم، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ہاتھوں سے مٹی اٹھا کر سر پر تغاری میں رکھ کر یہاں لا کر ڈالتے رہے اور ساتھ ہی حد بندی کیلئے کٹہرا بھی بنوا دیا۔
پھول والوں کی سیر
٭.... حضرت قطب صاحب کے دور میں ان کا گا¶ں مہرولی دِلی سے سات کوس کے فاصلے پر تھا آپ کے وجود مسعود کی برکت سے بادشاہ وزیر سب دیوانہ وار یہاں کھنچے آئے اور یہاں آکر اپنے محلات، باغات اور مقابر بنانا شروع کیے دوسرے آپ کے وجود کی برکت سے یہاں کی آب و ہوا بھی بہت تروتازہ تھی اور بادشاہ ہند اکبر شاہ ثانی برسات کے موسم میں یہاں آ کر قیام کرتا جب اکبر شاہ کے لاڈلے بیٹے مرزا جہانگیر کو قید کر کے الٰہ آباد بھیجا گیا تو اس کی والدہ نواب ممتاز محل نے حضرت قطب صاحب کی درگاہ پر حاضری دے کررہائی کیلئے منت مانی تھی۔ چنانچہ قطب صاحب کی دعا کی برکت سے مرزا جہانگیر کو قید سے رہائی ملی۔ نواب ممتاز محل نے منت پوری ہونے پر پھولوں کا چھپر کھٹ، غلاف بہت اہتمام سے تیار کرایا جبکہ پھول والوں نے اپنا تیار کردہ پھولوں کا پنکھا بھی ساتھ لٹکا دیا۔ سارا قلعہ معلیٰ اور شہر کے لوگ جمع ہو گئے اور اس نے ایک بہت بھاری میلے کی شکل اختیار کر لی اور اسے پھول والوں کی سیر کا نام دیا گیا۔ بادشاہ نے یہاں دیوان خاص اور محلات بھی تعمیر کرائے جبکہ مرشد زادوں کے مکانات کی اپنی آب و تاب اور رونق تھی۔بادشاہ کو یہ میلہ اس قدر پسند آیا کہ اس نے ہر سال ساون میں اسے منعقد کرنا شروع کر دیا۔ پندرہ روزہ میلہ میں قلعہ معلیٰ اور دہلی کے تمام مشہور خاص و عام پکوان اور کھیل تماشے ہوتے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ سلسلہ موقوف ہو گیا تھا مگراب بھی عرس پر دہلی سے لوگ پھول اور پنکھے لے کر حاضر ہوتے ہیں۔
....
قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
Oct 02, 2023