ادیب جاودانی کا شمار لاہور کی اہم سیاسی اور سماجی، صحافتی اور تعلیمی شخصیات میں ہوتا تھا، میری ان سے کم و بیش چالیس پینتالیس سال شناسائی اور تعلق داری رہی۔ وہ ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے ایک گاﺅں کے رہنے والے تھے۔ان کے دماغ میں یہ بات سما گئی تھی کہ وہ صحافت کے میدان میں قسمت آزمائی کریں گے۔ ان کا ذہنی رجحان پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف تھا اور روز نامہ وفاق جس سے وہ وابستہ ہونا چاہتے تھے، پیپلز پارٹی کا سخت مخالف تھا۔
جب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہوئے تو ادیب جاودانی کی خواہش تھی کہ وہ لائل پور میں وفاق کے بیورو چیف بن جائیں۔ وہ اس سے پہلے بھی دو تین اخبارات میں کام کرچکے تھے۔ ان میں سے ایک لائل پور کا روزنامہ تجارتی رہبر تھا جسے انہوں نے اخبار کی لوح میں تجارتی کے لفظ کو ذرامختصر کرکے ایک معنی میں روزنامہ رہبر بنا دیا تھا۔
ادیب جاودانی کی ادارت میں تجارتی رہبر نے جتنی مالیت اور جتنے حجم کے اشتہارات حاصل کئے وہ ا ن کی خدادادصلاحیتوں کا مظہر تھے۔ انہوں نے چند ماہ میں ہی تجارتی رہبر کو لائل پور کا مالی طورپر مضبوط و مستحکم اخبار بنا دیا لیکن ان کی فکر رسا نے تجارتی رہبر کو بھی اپنے عزائم کے مقابلے میں قدرے محدودا خبار سمجھا۔
نواز شریف کے ایک دور حکومت میں سات روزہ آفاق لاہور کے مدیر و مالک شوکت حسین شوکت کو گرفتار کرکے بہاول پور جیل بھیج دیا گیا تو ادیب جاودانی بہاولپورجا پہنچے اورشوکت حسین شوکت سے سات روزہ اخبار چلانے کے تمام اختیارات ساتھ لیتے آئے۔ آفاق کے نام سے شائع ہونے والا اخبار کئی ادوار سے گزرا، اس کی ملکیتیں تبدیل ہوئیں، نئے سے نئے ایڈیٹر آئے، سب سے پہلے مشہور دانش ور پروفیسر محمد سرور نے ”آفاق“ نکالا۔انہیں ممتاز صحافی کالم نویس میاں محمد شفیع عرف میم شین کی اعانت بھی حاصل رہی اور پھر میاں محمد شفیع کی پس پردہ کاوشوں سے ہی یہ روزنامہ بنا اور اس وقت کے ممتاز صنعت کار میاں سعید سہگل کی ملکیت میں آیا اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کے سابق چیف رپورٹر اور ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے سید نور احمد آفاق کے منیجنگ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس زمانے کے تمام معروف صحافی اس ادارہ میں شامل تھے جن میں ظہور عالم شہید، بشیر احمد ارشد، انتظار حسین، علی سفیان آفاقی، زاہد چوہدری، میم شین، ضیاءالاسلام انصاری، سردار فضلی ،زکریا ساجد، اشرف طاہر، مقبول احمد، منصور قیصر، منصور حیدر، آخری دور میں مصطفی صادق اور یہ خاکسار بھی ادارہ آفاق میں شامل تھے۔
آفاق پنجاب کی سیاست میں ممتاز دولتانہ کا حامی تھا جب کہ نوائے وقت نواب ممدوٹ کا ہم نوا تھا۔ سعید سہگل نے بالآخر آفاق کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا اور اخبار کی ملکیت کارکنوں کو منتقل کر دی۔ یہ کارکن چند دن ہی اخبار نکال سکے اور آپس میں لڑ پڑے، پولیس آگئی اخبار کا دفتر سر بمہر ہوگیا اور آفاق کا سورج غروب ہوگیا۔ اس کے بعد یہ اخبار حکیم ریاض احمد قرشی کی ملکیت میں آیا جو تحریک پاکستان کے رہنما حکیم آفتاب احمد قرشی اورموجودہ قرشی دواخانے کے مالک اقبال احمد قرشی کے منجھلے بھائی تھے۔ یہ تجربہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور اخبار ایک اشتراکی انقلابی مطلبی فرید آبادی کے ہاتھوں میں آگیا۔ انہوں نے اسے سیکولر ازم اور سوشلزم کے نظریات کا علمبردار بنا دیا لیکن اخبار کی مالی ضروریات کے میدان میں یہ بزرگ انقلابی بھی مات کھا گئے اور اخبار بند ہوگیا۔
شوکت حسین شوکت اس زمانے میں سات روزہ آتش نکالتے تھے۔ آفاق کا نام خالی پا کر انہوں نے آتش کا نام آفاق رکھ لیا۔ شوکت حسین شوکت کے اخبار کا افتتاح جناب مجید نظامی نے کیا۔ اس تقریب میں آغا شورش کاشمیری بھی شریک تھے۔ شوکت حسین شوکت کی نظر بندی کے دوران ادیب جاودانی نے سات روزہ آفاق کو زندہ رکھا وہ اگرچہ شوکت حسین شوکت کی جلالی تحریروں سے تو محروم تھا لیکن ادیب صاحب نے اسے جمالی حسن عطا کیا۔ شوکت صاحب جب چھ ماہ بعد جیل سے باہر آئے تو ادیب صاحب نے ان کی امانت ان کے سپرد کر دی، یا شوکت صاحب نے یہ اخبار ان سے واپس لے لیا۔ بعد ازاں یہ اخبارسات روزہ سے روزنامہ ہوگیا۔
ادیب جاودانی بھٹو صاحب کے برسراقتدار آنے کے کچھ عرصہ بعد روزنامہ وفاق سے وابستہ ہوگئے۔ اس وقت وفاق کا دفتر آغا شورش کاشمیری کے سات روزہ چٹان کی بلڈنگ (88 میکلوڈ روڈ) میں بالائی منزل پر واقع تھا۔ ادیب صاحب نے وفاق کی ایجنسی بھی لے لی اور چند اخبار فروشوں کی مدد سے لائل پور میں وفاق کی اچھی خاصی اشاعت بنالی۔(جاری)