کہتے ہیں کہ دلیر شخص اور دلیر قوم کے عادات اور خصائل عام آدمیوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایسے اشخاص اور ایسی اقوام عموماً اچھے اور مخلص دوست ثابت ہوتے ہیںجو مشکل حالات میں بھی دوستی نبھاتے ہیں۔ یہ خاصیت سردار صاحبان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ مندرجہ ذیل واقعہ اسی صفت کی ایک مثال ہے۔ یہ واقعہ حوالدار جرنیل سنگھ اور حوالدار محمد رمضان کا ہے۔ حوالدار جرنیل سنگھ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سکھ تھااور محمد رمضان ایک مسلمان اور پیشے کے لحاظ سے کمہار۔ دونو ںکا تعلق مشرقی پنجاب کے ایک ہی گاو¿ں سے تھا۔ دونوں ہم عمر تھے اور مل کر کھیلتے اور یوںاکھٹے کھیلتے کھیلتے دوست بن گئے اور پھر ان کی دوستی پکی ہو گئی ۔ گاو¿ں کے لڑکوں کے ساتھ بھی جب کھیلتے تویہ دونوں کھیل کی ٹیم میں اکٹھے ہوتے۔ کہیں لڑائی بھڑائی کا واقعہ ہو جاتا تو یہ اکٹھے ہو کر لڑتے تو یوں گاو¿ں کے لڑکے ان کی دوستی سے خار کھاتے اور کوشش کرتے کہ ان سے لڑائی یا گالی گلوچ نہ ہو کیونکہ یہ ایسے حالات میں فوری گلے پڑ جاتے اور مخالف کو اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک اس کا خون نہ بہا لیتے یا وہ اپنی ہار قبول نہ کر لیتے تویوں ان کا پورے گاو¿ں میں ٹہکا تھا۔
جرنیل سنگھ کا باپ ایک بڑا جاگیردار تھااور گاو¿ں کا نمبردار بھی۔ وہ ایک بہت بڑی حویلی میں رہائش پذیرتھا۔ گاو¿ں کے باقی بچے یا توصبح صبح سکول چلے جاتے یا پھر والدین کے ساتھ کام میں مصروف ہو جاتے لیکن یہ دونوں صبح کے وقت بالکل فارغ ہوتے۔ کوئی لڑکا ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے نہ ملتا تویوں محمد رمضان صبح اٹھتے ہی جرنیل سنگھ کی حویلی کا رخ کرتا۔ حویلی چونکہ بہت بڑی تھی وہاں سایا بھی تھااس لیے دونوں مل کرسارا دن وہاں کھیلتے بلکہ ادھم مچاتے۔ ان کا پسندیدہ کھیل گیند بلا تھاجو یہ صبح صبح شروع ہو جاتے۔ ایک دن سردیوں کے موسم میں جرنیل سنگھ کی والدہ باہر دھوپ میں بیٹھ کر کپڑے مرمت کر رہی تھی اوریہ دونوں حسبِ معمول کھیل رہے تھے۔ محمد رمضان نے جو گیند کو زور سے ہٹ کیا تو یہ سیدھا جرنیل سنگھ کی ماں کی آنکھ پر جالگااور وہاں سوجن ہوگئی۔ جرنیل سنگھ کا والد اس وقت گھر پرنہیں تھا۔ شام کو جب جرنیل سنگھ کا والد گھر آیا تو والدہ نے ا ن دونوں کی شکایت کی جس سے جرنیل سنگھ کے والد سردار ہیرا سنگھ کو بہت غصہ آیا۔ دوسرے دن صبح صبح سردار صاحب نے دونوں کو پکڑا اور لے جاکر سکول داخل کرا دیا۔ ساتھ ہی سردار صاحب نے دونوں کے سامنے ماسٹر صاحب کو تنبیہ کر دی کہ اگر یہ دل لگا کر نہ پڑھیں تو ان کی ہڈی پسلی ایک کر دی جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیںہوگا۔ اس ڈر سے انھوں نے پڑھائی میں دلچسپی لی اور اچھے طالب علم ثابت ہوئے۔ یہ ایک مڈل سکول تھااور انھوں نے بخیروخوبی مڈل پاس کر لیا۔ اور پھر آگے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ سردار صاحب کو غصہ آیااور اس نے دونوں کو اپنے اپنے خاندانی کام پر لگادیا۔
وقت کا دھارا چلتا رہاتو دونوں جوان ہوگئے۔ دونوں نے بڑا اچھا قد نکالا اور مضبوط جسم کے جوان بنے۔ لیکن دونوں اپنے اپنے کام میں خوش نہیں تھے کیونکہ ایک تو دونوں کواپنا خاندانی کام پسند نہیں تھادوسرادونوں کو آپس میں ملنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ پھر ایک دن ان کے قصبے میں فوجی بھرتی کا اعلان ہوا ۔ گاو¿ں کے بہت سے نوجوان بھرتی کے لیے پیش ہوئے جن میں یہ دو بھی شامل تھے ۔ ا ن کی خوش قسمتی کہ دونوں منتخب ہوگئے اور دونوں کو’پنجاب رجمنٹ‘میں بھرتی کر لیا گیا۔ والدین کو اس وقت پتا چلاجب یہ ٹریننگ کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ گھر والے اس لحاظ سے خوش ہوئے کہ چلو اچھا ہوا فوج انھیں خود انسان بنائے گی کیونکہ یہاں یہ نہ تو ماں باپ کی بات مانتے تھے اور نہ ہی کام کرتے تھے۔ ایک لحاظ سے ماں باپ ان دونوں سے تنگ تھے ۔ ٹریننگ سینٹر میں دونوں نے دل لگا کر تربیت حاصل کی اور بڑے اچھے سولجرز ثابت ہوئے یہاں تک کہ ٹریننگ انسٹرکٹرز بھی ان کی عزت کرتے ۔ ٹریننگ ختم ہونے کے بعد مل ملا کر دونوں نے ایک ہی یونٹ لی ۔ یونٹ برما کے محاذ پر جنگ لڑرہی تھی، لہٰذاانھیں بھی وہاں بھیج دیا گیا۔ گو یہ نئے ریکروٹ تھے لیکن دلیر اور چست سولجرز تھے ۔ ان کی جنگی کارکردگی بھی قابلِ تعریف رہی جس سے یونٹ کا کمانڈنگ آفیسر ان سے بہت خوش تھا۔ جنگ ختم ہوگئی تو یونٹ اپنے زمانہ امن کے سٹیشن انبالہ آگئی ۔ دونوں والی بال بہت اچھا کھیلتے تھے، لہٰذا یونٹ ٹیم میں آگئے اور بعد میں بریگیڈٹیم میںبھی منتخب ہوگئے۔ سردار صاحب جب زیادہ جوش میں آتے تھے تو محمد رمضان کو’اوکمہار دے پترا‘ کہہ کر بلاتے ۔رمضان اسے’ اوسکھ دے پترا‘کہہ کر بلاتا لیکن دونوں کی دوستی مثالی تھی۔ کھلاڑی ہونے کی وجہ سے دونوںکو جلد ترقی مل گئی اور یہ حوالدار بن گئے۔
ہندوستان تقسیم ہواتو جرنیل سنگھ ہندوستان میں رہ گیا اور رمضان پاکستان آگیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد فوری طور پر کشمیر میں جنگ شروع ہو گئی۔ اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ دونوں کی بٹالین کشمیر کے ضلع پونچھ میں لڑائی میں آمنے سامنے آگئیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کا پتا چل گیا، لہٰذا دونوں نے ایک دوسرے سے ملنے کے لیے ایک کوڈ مقرر کیاجو ایک پرانا انڈرویئر تھا۔ جب جرنیل سنگھ انڈرویئر سوٹی پر ٹانگ کر او پر کرتا تو رمضان اس کے جواب میں اسی طرح سوٹی پر انڈرویئر او پر کردیتا۔ دونوں مقررہ جگہ پر مل لیتے۔ ایک دفعہ جرنیل سنگھ نے انڈرویئر اوپر کیا۔ رمضان نے اسی طرح جواب دیا۔ جرنیل سنگھ نے آواز دے کر پوچھا کچھ پتی چینی ہے صبح سے چائے نہیں ملی۔ رمضان نے پتی اور چینی سٹور سے نکالی اور چپکے سے سامنے NO MAN LAND میں ایک چوٹی پر رکھ کر واپس آ گیا۔ حسب روایت سوٹی پر انڈرویئر کھڑا کیا گیاتوکچھ دیر بعد ان کی یونٹ کے ایریا سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا شاید چائے بن رہی تھی۔
ایک دن رمضان کی پلاٹون کو سامنے والی ٹیکری پر قبضہ کرنے کا حکم ملا۔ حملہ صبح اندھیرے میں چار بجے شروع ہوا۔ سامنے بھارتیوں کی طرف سے سخت مزاحمت ہوئی۔ حوالدار رمضان آگے رہنمائی کر رہا تھا۔ گولی لگی گر گیا۔ اتنی دیر میں روشنی ہو چکی تھی۔ ایک سپاہی نے زور سے پیچھے آواز دی۔ استاد جی شہید ہو گئے ہیں جلدی آ¶۔ جرنیل سنگھ کہیں دور بین سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر رمضان پر پڑی اس نے سیٹی مار کر اپنے علاقہ میںفائر بند کرا دیا۔ ایک سوٹی کے او پر سفید چادر لٹکا کر آگےNO MAN LAND میں آکر آواز دی، ’او مسلیو، گولی نہ چلانا مینوں سجناں نوں مل لین دیو‘۔ لہٰذا ادھر سے بھی خاموشی ہو گئی۔ جرنیل سنگھ ٹیکری پر آیا جہاں رمضان گرا پڑا تھا اس کا خون بہہ رہا تھا۔ جرنیل سنگھ نے رمضان کے منہ پر ہاتھ پھیر کر آنکھیں بند کیں۔ جیب سے رومال نکال کر اس کے چہرے پر ڈالا۔ ساتھ ایک جنگلی بوٹی سے دو تین پھول تو ڑ کر اس کے چہرے پر ڈالے۔ سلیوٹ مارا۔ دو آنسو ڈھلک کر سردار صاحب کے چہرے پر آگئے۔ کہا، ’او کمہار دے پترا، رب را کھا!‘۔ تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا واپس چلا گیا۔ اپنے علاقے میں پہنچ کر پھر سیٹی بجائی اور جنگ شروع ہوگئی۔